1.  Home/
  2. Blog/
  3. Kiran Arzoo Nadeem/
  4. Hum Vote Kis Ko Dein?

Hum Vote Kis Ko Dein?

ہم ووٹ کس کو دیں؟

یہ سوال ہر اُس شخص کے ذہن میں گردش کرتا ہے کہ وہ ووٹ کس کو دے؟ کیونکہ ظاہر اور باطن میں بہت فرق ہوتا ہے، جو کہ ہمیں اس آنکھ سے اکثر اوقات نظر نہیں آتا۔ عام معمول ہے کہ جب کوئی شخص شہرت اور عزت بلکہ عوام کی عقیدت حاصل کر لیتا ہے تو احتیاط برتتا ہے کہ اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہونے پائے جس سے اس کی شہرت کو نقصان پہنچے اور عقیدت داغ دار ہو جائے، لیکن اسے کریکٹر نہیں کہا جائے گا۔ یہ وہی امانت اور دیانت ہے جس کے متعلق کاروبار دنیا میں کہا جاتا ہے کہ "Honesty is the best policy"۔

اس قسم کا کریکٹر بطور پالیسی اختیار کیا جاتا ہے، اس کے جس زمانے میں ایک شخص عام انسانوں کی سی زندگی بسر کر رہا ہو اور ان عیوب و زمائم سے بچا رہے جو اس کے معاشرہ کا معمول بن چکے ہوں، تو اسے حقیقی کریکٹر کہا جائے گا۔ اب پھر وہی سوال کہ ہم کیسے جانچ پائیں گے کہ حقیقی کریکٹر کا مالک کون ہے؟ ہمارے ہاں سیاسی نظام کے سلسلے میں اس قسم کی بحثیں چلتی رہتی ہیں کہ اُمیدواروں کی شرائط کیا ہونی چاہیے، ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ ان کو اپنے اثاثے ٹھیک ٹھیک ظاہر کرنے چاہیے، لیکن اہم اور بنیادی خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ ماضی کی زندگی کیسی تھی؟

اُس وقت تو وہ قرآن اُٹھا اُٹھا کر دعویٰ کریں گے کہ وہ نہایت امین اور صداقت شعار رہیں گے لیکن صداقت کا معیار اُن کا وہ ماضی ہونا چاہیے جیسا اُنھوں نے گزارا، دیکھنا چاہیے کہ ماضی بے داغ تھا اگر ماضی میں کوئی داغ ہو تو کھلے بندوں اس کا اقرار کرے کیونکہ انسانوں سے غلطیاں سرزد ہونے کا امکان رہتا ہے لیکن جب وہ غلطی تسلیم کرتا ہے اور دوبارہ نہ کرنے کا عزم کرتا ہے، اس جملے پر بار بار غور کریں کہ انسانوں سے غلطیاں سرزد ہو جایا کرتی ہیں، لیکن اعلیٰ کردار کا مالک انسان اپنی غلطی کو کھلے بندوں تسلیم کرتا ہے اور آئندہ اسے باز رہنے کا وعدہ کرتا ہے۔ وہی انسان اس قابل ہوتا ہے کہ اس پر اعتبار کیا جائے اور اُس کو ووٹ دیا جائے، اُس کو ذمہ داری دی جائے۔

یہ بات بلا تفریق ہر سیاسی جماعت پر لاگو ہوتی ہے اور یہ بات ہمیں کس نے بتائی؟ ہمارے دین نے ہر شعبے میں راہنمائی فراہم کر دی ہے؟ حضور ﷺ نے اپنے مخالفین کے سامنے اپنے زمانہ، قبل از نبوت کی زندگی کو اپنی صداقت کے ثبوت میں پیش کیا، اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ خود خدا نے اسے پیش کرنے کا حکم دیا؟ اس لئے حضور ﷺ نے خود اپنے آپ کو مثال کے طور پر پیش کر کے انسانوں کے پرکھنے کا محکم معیار تجویز کر دیا اس سے ہمیں یہ ہدایت دی گئی کہ جب کوئی شخص کسی ذمہ داری کو نبھانے کے لئے سامنے آئے تو اس کے ماضی کو دیکھو کہ وہ کس قسم کا تھا پھر اُس کی دیانت و امانت کے متعلق فیصلہ کرو۔ اول تو یہ دیکھو کہ اس کی ماضی کی زندگی بے داغ تھی اگر اس میں کوئی داغ ہو تو وہ کھلے بندوں اقرار کرے اور آئندہ سے باز رہنے کا وعدہ کرے۔

کتنا آسان ہے جانچنا، ہم باآسانی انسانوں کو پرکھ سکتے ہیں، لیکن ہم برادریوں میں اُلجھ کر، کبھی اپنے مفاد کے پیشِ نظر اور اکثر اندھی تقلید کی وجہ سے کبھی قوتِ فیصلہ کی کمی، سب کچھ مل جل کر ہم ٹھیک فیصلہ نہیں کر پاتے، حالانکہ ربّ کی راہنمائی تو موجود ہے، جس کی مدد سے ہم انسانوں کی جانچ کر سکتے ہیں۔

Check Also

Kya Hum Mafi Nahi Mang Sakte?

By Mohsin Khalid Mohsin