Azadi Aur Nishat
آزادی اور نشاط
ہر قوم اپنے مفاد کے لئے دوسری قوم کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ ہر ایک کےنزد My my country, my nationmy, right or wrong.
اسرائیل اور ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ کئے گئے مظالم دیکھ کر مجھے ایک مفکر (cavour) کے الفاظ یاد آ جاتے ہیں
if we did ourselves what we do for our country, what rescals we should be (cavour foreign Afairs). july 1952
"جو کچھ ہم اپنے وطن یا قوم کے لئے کرتے ہیں اگر وہی کچھ نجی طور پر اپنی زات کے لئے کریں تو کتنے بڑے شیطان کہلائیں"۔
تاریخ کے انہی ادور میں ہمیں ایک اور قوم نظر آتی ہے۔ نرالہ سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا۔ قرآن نے ایسی قوم پیدا کی جس کے لئے کہا کہ
کُنتُم خّیرّ اُمّتہِِ اُخرِ جّت للناس9 3:10
"تم وہ بہترین اُمت ہو جیسے ہم نے انسانیت کی بھلائی کے لئے پیدا کیا ہے۔ یہ وہ مقا مات ہیں جہاں قرآن بے مثل اور بے نظیر نظر آتا ہے۔ جب سے انسان کے شعور نے آنکھ کھولی اور تاریخ مرقوم ہوئی ہے، آج تک کسی مقام پر یہ نظر نہیں آئے گا کہ کسی قوم سے کہا گیا ہو کہ تمھیں ہم نے پیدا کیا تا کہ تم نوعِ انسانی کی بھلائی کرو۔
حضور ﷺ کی بعثت کا مقصد یہی تھا کہ نوعِ انسانی جن زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے ان زنجیروں کو توڑ ڈالے، ہر قسم کی غلامی سے نجات دلائے۔ رزق کی مختاجی، ضروریاتِ زندگی کی محتاجی، جب انسان روٹی کے لئے مختاج ہو جاتا ہے تو ہر قسم کی غلامی اس کے حصے میں آ جاتی ہے۔ ہر مزدور کی یہی کیفیت ہے۔ آزادی کی ابتداء فّکُرّ قّبّتہ 90:13 سے ہوگئی۔ یہ اسلام کا پہلا قدم ہے۔ ہم نے کسی کو کیا آزاد کروانا ہے ہم تو خود اپنی روٹی کے لئے دوسروں کے مختاج ہیں وہ قوم جس نے قوموں کی امانت کرنا تھی وہ قوم دوسروں کی محتاج ہے، ہم دوسروں کے آگئے ہر وقت ہاتھ پھیلائے ہوئے رہتے۔
خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
پختہ ہو جاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام
اقبال۔ ضربِ کلیم
ہم نے پا کستان حاصل ہی اس لئے کیا تھا کہ تمام نوعِ انسانی کو غلامی سے نجات دلائیں، لیکن ہم تو نہ بھارت میں مسلمانوں کے لئے کچھ کر سکے، فلسطینی مسلمان تو ہیں سات سمندر پار۔ النٰزِعٰت غّرقاََ 79:1
دو الفاظ ہیں جو قرآن نے استعمال کئے ہیں النٰزِعٰت کے معنی ہوتے ہیں کسی کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹ کر اوپر لے کر چلے جانا۔ زبر دستی ڑوبنے سے بچانا غرقاََ جو پانی کی تہہ میں ڈوب جائے اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ کچھ دیکھ سکتا ہے نہ سن سکتا ہے نہ کوئی اس کی سن سکتا ہے۔ اس طرح بالوں سے گھسیٹ کر اس کو اوپر لے آنا۔ اس کو بچانا جو پانی میں غرق ہو جاتا ہے اس کے حواس کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
نبی اکرم ﷺ نے دنیا کو بتایا جب انھوں نے قیصر و کسریٰ کو خط لکھے کہ تمھارے ہاں مزدوروں، کا شتکاروں، مزاروں پر جو ظلم ہو رہے ہیں انھیں روک دو تو اچھا ہے ورنہ تمھارے ہاتھ روک دینے پڑیں۔ اندازہ لگائیے کہ قیصر و کسریٰ کو خط لکھے کہ تمھارے ہاں مزدوروں، کا شتکاروں، مزاروں پر جو ظلم ہو رہے ہیں انھیں روک دو تو اچھا ہے ورنہ تمھارے ہاتھ روک دینے پڑیں گئے۔ اندازہ لگائیے کہ قیصرو کسریٰ کو خطوط لکھے تھے، زدہ نا چیز و تعمیرِِ بیا بانے نگر
عرب کا ایک یتیم جس کی اپنی مملکت بھی قائم نہیں ہوئی وہ یہ لکھ رہا ہے اور دنیا نے پھر دیکھا کہ دنیا کی سب سے بڑی تہذیبیں اور مملکتیں کس طرح نست و نا بود ہوگئیں
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اصل خوشی اور آزادی یہی ہے کہ خدا کی عائد کردہ پابندیوں کے زیر سایہ آزادی۔ اسی کا نام نشاط ہے۔
مجھ کو اپنا بنا کے چھوڑ دیا۔۔ کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے!۔۔ کاش مملکتِ پا کستان ظلم کی چکی میں پسے ہوئے نہ صرف مسلمانوں کو بلکے انسانوں کو نکا لنے میں کامیاب ہو سکیں! ابھی تو ہم دوسروں کے دستِ نگر ہیں! کیسی آزادی! کیسی اسیری! کیسا نشاط!