Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Zaat Paat Ki Taqseem

Zaat Paat Ki Taqseem

ذات پات کی تقسیم

میری عمر 33 سال ہے۔ اس میں شعور کے سال جتنے ہونگے وہ آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔ چند ہی سال ہیں۔ میں نے اپنے آس پاس متکبر اور دوسروں کو خود سے چھوٹا یا کمتر سمجھنے والے لوگوں کو ان کی اپنی زندگی میں ہی یا ان کی وفات کے بعد ان کی اولادوں کو چند سالوں میں ہی آسمان سے زمین پر آتے دیکھا ہے۔ اور جن پر وہ ظلم کرتے رہے، ان کو دباتے رہے، ان کو چھوٹا ثابت کرتے رہے، انڈر ایسٹی میٹ کرتے رہے، اللہ نے ان کو عزتوں سے نواز دیا کہ ذلت اور عزت اس کے ہاتھ میں ہے۔

بڑا بول کبھی نہ بولیے اور کسی بھی پیشے یا کام کو چھوٹا نہ سمجھیں۔ نہ ہی نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھیں۔ کسی پر ظلم نہ کریں۔ کسی کا حق نہ ماریں۔ یہ سب یہاں ہی دے کر جانا پڑے گا۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں جس کا باپ اپنے وقت میں خود کو گاؤں کا نمبردار، چوہدری، کرتا دھرتا، پرے پنچائت کا سرپنچ سمجھتا ہو۔ سارا گاؤں اس کے کہنے پر ووٹ ڈالتا ہو، اور جن کاموں کو وہ چھوٹا اور حقیر سمجھتا ہو اور اس کی اولاد وہی کام بطور پیشہ اپنا لے۔

جیسے جوتوں کی دوکان کھول کر زمین پر بیٹھ کر لوگوں کے پاؤں میں جوتے پہنائے اور اتارے؟ سروس اسٹیشن پر سارے گاؤں بشمول کمیوں کی بائیکس اور کاریں دھوئے، آلو پیاز اور سبزیاں بیچے، سائیکلوں اور بائیکس کو پنکچر لگائے، گاؤں کے سکول میں چپڑاسی لگ جائے، ساتھ والے گاؤں میں جا کر کسی اور زمیندار کے ساتھ "کاما" رہے، شہر جا کر بھیک مانگے، چائے شاپ بنا کر سارے بازار میں دوکانداروں کو چائے پلائے، تندور کھول لے، مستری کے ساتھ مزدوری کرے، رکشہ چلائے اور دوبئی جا کر حمام میں لوگوں کی حجامت تک کرے۔

یورپ جا کر وہ سب کچھ کرے جو آپ سب جانتے ہیں۔ جو وہ یہاں کسی کو بتا بھی نہیں سکتا اور اس جیسے بے شمار کام جو عموماً چھوٹے سمجھے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ سب کمیوں کے کرنے والے کام ہیں۔ ہر گاؤں میں یا شہروں میں آپ اپنے آس پاس دیکھ سکتے ہیں ماضی کے سب نہیں مگر متکبر اور ظالم، قبضہ مافیا، چوہدریوں اور وڈیروں کی اولاد پیٹ کی آگ بھجانے کو یہ سب کام کر رہی ہے۔

وقت اور حالات بدلتے دیر نہیں لگتی میری جان۔ کاش وہ وقت کے فرعون اور خود کو اعلیٰ و ارفع اور دوسروں کو کمتر سمجھنے والے اپنی قبروں سے اٹھ کر دیکھ سکیں آج ان کی اولاد کیا کر رہی ہے؟ تو ان کی ساری اکڑ ایک پل میں نکل جائے۔ جیتے جی مر جائیں۔ دوستو اللہ کی لاٹھی بڑی ہی بے آواز ہے۔ کبھی بھی کسی کو خود سے کمتر نہ سمجھیں۔ وہ اللہ دلوں کے راز جانتا ہے اور وہ خود اپنے کمزور بندوں کی طاقت بن جاتا ہے۔ تخت و تاج روند دیے جاتے ہیں۔

گوجرانولہ کی ایک عدالت میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے وکیل دوست نے بتایا کہ یہ جج صاحب کے سامنے ہاتھ باندھے سر جھکائے کھڑا نائب قاصد اسی گاؤں کے سب سے بڑے چوہدری کا بیٹا ہے۔ جس گاؤں میں ایڈشنل سیشن جج کے والد صاحب نائی کا کام کرتے تھے۔ دیکھو خطیب حالات نے کیسے کروٹ بدلی ہے۔ وہ نائب قاصد ہمیں کنٹین پر ملا۔ میں نے اسے پوچھا کہ جج صاحب آپکے گاؤں سے ہیں؟ بولا آہو نائی اے ساڈے پنڈ دا جج بن کے بھٹی بن گیا اے۔ یعنی رسی جل گئی بل نہ گیا۔

میں اپنے اور سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سکولوں، کالجوں میں دیکھتا ہوں کہ درجہ چہارم میں اکثریت چوہدری ہوتے ہیں۔ یعنی یہ سیٹیں سفارشی ہوتی ہیں۔ تو ایم این اے اور ایم پی اے گاؤں کے کرتا دھرتا کے بچوں کو کامیاب ہو کر ملازمت دلواتے ہیں۔ آج کے دور میں درجہ چہارم ہی کی ملازمت مل سکتی سفارش پر اور وہ لے دیتے۔ آپ دس سکول یا کالج گن لیں، انکے پرنسپل صاحبان کی بیک گراؤنڈ دیکھیں، ان میں سے 7 سے 8 کے والدین مزدور ہی ہونگے۔

اعلیٰ افسران میں بھی یہی ہے۔ وہ کسان بھی ہوئے تو نان چوہدری ہونگے یا کمی ہونگے۔ ان کو کسی گاؤں کا چوہدری اپنے بچوں سے آگے اور اوپر آنے سے روک تو نہیں پایا۔ جن کو تم کمپلیکس میں ڈالتے رہے آج اللہ نے ان کو عزت دی۔ تم ان کو نائی، موچی، ماچھی، کمہار، ترکھان، لوہار، جولاہے کہو۔ اپنے اندر کے حسد اور کوڑھ کو بس ظاہر کرو گے ان کا بگاڑ تم کیا سکتے ہو؟ کیا اپنے بچوں کو ان کی جگہ لگوا سکتے ہو؟ پھر اکڑ اور غرور کیسا؟

یہ کوئی قومیں تو نہیں ہیں صرف پیشے ہیں۔ ان سب کی کوئی قوم بھی ہو گی؟ ان کو اس پہچان سے ہی پکارو جو وہ خود کو کہلانا پسند کرتے ہیں۔ سیاست اور اقتدار کے ایوانوں میں بھی یہ اونچی اور نیچی ذات پات کا بت بھی ان شاءاللہ عنقریب ٹوٹ جائے گا۔ یارو اللہ کا ہر حال میں شکر ادا کرو، اس کی ہی ذات سب سے اعلیٰ ہے۔ برتری کا معیار تقویٰ ہے ناکہ قوم یا کوئی مخصوص ذات پات اور جسے اللہ نے عزت دی ہے اس کی عزت کرو۔

تم جیسے ہزاروں، لاکھوں متکبروں کے بچے ان کی وفات کے بعد یا ان کی زندگی میں ہی آج تمہارے سامنے وہ سب کام کر رہے ہیں جنہیں تم آج چھوٹے اور نیچ کام کہتے ہو۔ اللہ کے سب بندوں سے وہ کوئی بھی کام کرتے ہیں وہ کسی بھی مذہب یا ذات، قوم سے ہیں پیار کرو اور اپنے دل میں ان کی محبت اور احترام رکھو۔ تم نے اپنی روش نہ بدلی تو وقت دور نہیں جب تمہاری اولاد بھی یہی کر رہی ہو گی جو کام کرنے والوں کو تم آج چھوٹا اور کمتر کہتے ہو۔

استاد قوم کے معمار ہیں۔ وہ آگے آئیں اور اپنی آنے والی نسل کو اس ذات پات کی تقسیم سے نکالیں اور کسی کو بھی اس کے والد کے پیشے کی وجہ سے احساس کمتری کا کبھی بھی شکار نہ ہونے دیں۔ وہ اگر ایسا خود ہی کرتے ہیں، حسب نسب اور ذات پات کو دیکھ کر بچے کو ٹریٹ کرتے ہیں تو لعنت ہے ان کے استاد ہونے پر۔

ایک وضاحت۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی۔ کہ ظالم باپ تھا اور بھگتے اولاد۔ کہا یہ ہے کہ وقت اور حالات بدلتے دیر نہیں لگتی، کسی کو کمتر نہ سمجھیں۔ آپ اعلیٰ ہیں اللہ آپ کو بہت عزت دے۔ مگر کسی کو اس کے پیشے کے اعتبار سے یا کسی اور وجہ سے کمتر ڈکلئیر کرنے کا حق آپ کو نہیں ہے۔

Check Also

Donald Trump Ki Call

By Sharif Chitrali