Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Spinal Cord Injury

Spinal Cord Injury

سپائنل کارڈ انجری

رات کے نو بجنے والے تھے میں پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے ہیلتھ سنٹر کی ایمرجنسی میں داخل ہوا۔ مجھے چلتے ہوئے ایک ٹھوکر لگی تھی اور پاؤں کا ناخن شدید زخمی ہوا تھا۔ میں گر گیا تھا اور ایک کہنی پر بھی کافی گہری خراش آئی تھی۔ ایک تو چاننی کا ٹیکہ لگوانا تھا دوسرا مرہم پٹی کرانی تھی۔ ایمرجنسی میں ایک مسیح نرس آنٹی بیٹھی تھی، جس سے میری رسمی سی سلام دعا پہلے ہی تھی کہ میرا ڈیپارٹمنٹ سپیشل ایجوکیشن ہیلتھ سنٹر کے بلکل ساتھ تھا اور ہیلتھ سنٹر کے سٹاف سے کنٹین پر ہمارا آمنا سامنا روز ہوتا رہتا تھا۔ ہمارا ایک طرح سے ہمسائیوں والا تعلق تھا۔

میرے پاؤں کی چوٹ دیکھ کر آنٹی کا دل بھر آیا کہ سارا جوتا خون سے سرخ ہو چکا تھا۔ ایک ماں کی طرح میری بلائیں اور دعائیں بھی دیں۔ خیر زخم صاف کرکے پٹی کی اور انجیکشن لگائے۔ اسی اثنا میں ایک وہیل چئیر پر بیٹھی لڑکی ایمرجنسی میں آئی۔ وہ اپنی ایکٹیو مینوئل وہیل چئیر خود ہی چلا رہی تھی۔ مگر اسے کمپنی دینے کی خاطر ایک موٹی سی آپی ان کے ساتھ تھیں۔ شاید انکی روم میٹ ہو۔ میری ابھی کہنی کی پٹی رہتی تھی مجھے نرس آنٹی نے کہا کہ بیٹا تم بیٹھو میں زرا ان کو دیکھ لوں۔ ان کا معاملہ کوئی ایسا تھا کہ اس لڑکی کو بیڈ پر لٹانا ضروری تھا۔ جو لڑکی ساتھ آئی تھی وہ گول گپی تو خود اللہ جانے اپنا وزن کیسے اٹھائے پھرتی تھی اور نرس بھی عمر رسیدہ خاتون تھیں۔

دونوں نے اس لڑکی کو بازوں اور ٹانگوں سے پکڑ کر اوپر لیجانے کی کوشش کی تو وہ درد سے کراہنے لگی۔ فورا واپس وہیل چئیر پر بٹھا دیا گیا۔ اس نے نرس کو بتایا کہ چند ماہ قبل وہ واش روم میں گری ہے اور اسکی سپائنل کارڈ انجری ہوگئی ہے۔ نچلا دھڑ مکمل مفلوج ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کوئی معجزہ ہی اسے دوبارہ پاوں پر کھڑا کر سکتا ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ اسے کیسے اٹھانا ہے۔ میں نے قریب جا کر کہا کہ میں سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کا سٹوڈنٹ ہوں۔ مجھے آپکی اس حالت کا علم ہے اور آپ کو بیڈ پر شفٹ کرنے کا طریقہ بھی جانتا ہوں۔ آپ کو ان دونوں میں سے کوئی ایک اٹھائے۔ اگر آپ کو ایسے ٹانگوں بازوں سے پکڑ کر اٹھایا گیا تو ڈیمج شدہ نروز اور خراب ہونگی۔ آنٹی نے کہا کہ تم خود اٹھا کر لٹا دو اگر معلوم ہے تو۔

وہیل چئیر پر بیٹھی لڑکی نے اس بات پر کوئی رسپانس نہیں دیا خاموش رہی۔ میں پیچھے آکر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا اور آنٹی نے ان سے کہا کہ وہ ڈسپنسری سے کسی کو بلاتی ہیں وہ مدد کر دے گا۔ مگر ہوگا وہ بھی مرد۔ اس وقت کوئی اور فی میل نہیں ہے۔ ساتھ آئی دوسری آپی نے مجھے کہا کہ بھائی آپ آئیں پلیز اور اسے بیڈ پر شفٹ کر دیں۔ وہیل چئیر پر موجود لڑکی نے اسے دیکھا اور اس نے گھور کر اسے کہا چپ کرو کچھ نہیں ہوتا۔

میں نے جا کر اس سے کہا کہ اپنے بازو کا دائرہ بنا کر میرے گلے میں ڈال لیں اور ریلیکس رہیں۔ آپ نے کوئی بھی زور نہیں لگانا۔ میں خود آپ کو اٹھا لوں گا۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ میں نے دونوں ٹانگوں کے نیچے سے دوسرا بازو کرکے اسے اسی نچلے بازو کی فورس سے وہیل چئیر سے اٹھا لیا۔ ایسا ہی پڑھا تھا اور اسی پیٹرن پر پہلے بیڈ پر بٹھا کر پھر آہستہ آہستہ لٹا دیا۔ نرس نے پوچھا کوئی درد تو نہیں ہوئی؟ اس نے نفی میں سر ہلایا۔ اور میرا شکریہ ادا کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ ایک ایم اے سپیشل ایجوکیشن میں بھی کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

اس وقت وہ آئی بی آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ سے بی ایس کر رہی تھیں۔ میں نے کہا ضرور کریں آپ کی تو اپنی فیلڈ ہے۔ واپس ہاسٹلُ آکر ساری رات سپائنل کارڈ انجری کے نوٹس پڑھتا رہا کہ اسکے علاج اور بحالی میں کیا ممکنات ہیں۔ کچھ باتیں آپ کے علم میں اضافے کی خاطر آپ سے بھی یہاں شئیر کرتا ہوں کہ آپ یا آپ کا کوئی پیارا کسی حادثے میں سپائنل کارڈ انجری سے متاثر ہوجائے تو کیا کریں اور یہ ہوتی کیا ہے۔

علاج میں ہمارے پاس چار آپشنز ہیں۔

سرجری کرکے باقی ماندہ دبی یا کچلی ہوئی نروز کو رپئیر کیا جاسکے۔

ادویات انفیکشن سوجن نہ ہونے اور درد روکنے کے لیے سٹی رائیڈ اور پین کلرز دی جاتی ہیں۔

ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے برقی تاروں اور سنسرز کی مدد سے ڈیمج شدہ حصے کو بائی کرکے جسم میں مصنوعی وائرنگ کی جاتی ہے کہ پیغام کو نچلے دھڑ تک رسائی مل سکے۔ کسی حد کر مریض اپنی نچلے دھڑ کی حرکات واپس پا لیتے ہیں۔

چوتھے نمبر پر ربوٹک ٹانگیں ہیں۔ جن کو پہن کر آپ ربوٹ کی طرح لگیں گے اور چل پھر سکیں گے۔

آئیں اب زرا اس کنڈیشن کو سمجھتے ہیں، ہمارے دماغ کے تین اہم حصے ہیں۔ سیریبرم، سیریبیلم اور برین اسٹیم۔

سیریبرم دماغ کا سب سے بڑا حصہ ہے اور یہ دماغ کے دائیں اور بائیں نصف کرہ پر مشتمل ہے۔۔ یہ لمس، بصارت اور سماعت کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ تقریر، استدلال، جذبات، سیکھنے اور نقل و حرکت پر ٹھیک کنٹرول جیسے اعلیٰ کام سر انجام دیتا ہے۔ اگر خدا نخواستہ دماغ کا یہ حصہ متاثر ہوا تو اوپر جو چیزیں میں نے ذکر کی ہیں وہ لازما متاثر ہوں گی۔

سیریبیلم دماغ کے نیچے واقع ہے۔ اسکا کام پٹھوں کی نقل و حرکت کو "مربوط" کرنا، انداز کو برقرار رکھنا اور توازن قائم رکھنا ہے۔ اگر خدا نخوستہ یہ حصہ کسی وجہ سےمتاثر ہوا تو آپ کے پٹھوں کی نقل و حرکت ضرور متاثر ہوگی اور شاید آپ چلنے پھرنے اور ورزش کرنے کے قابل نہ رہیں۔

دماغ کے آخری حصے کو برین اسٹیم کہتے ہیں۔۔ برین اسٹیم ایک بہت اہم کام سرانجام دیتا ہے۔۔ یعنی یہ حصہ سیریبریم اور سیریبیلم کو "ریڑھ" کی ہڈی سے جوڑنے والے ریلے سینٹر کے طور پر کام کرتا ہے۔ آپ کا برین اسٹیم آپکے دماغ کا نچلا حصہ ہوتا ہے۔ سادہ الفاظ میں اس مطلب یہ ہے کہ یہ آپکے پورے دماغ کو آپ کی ریڑھ کی ہڈی سے جوڑتا ہے۔ اب ریڑھ کی ہڈی جسکو انگلش میں Spinal cord کہتے ہیں آپ کا دماغی نظام توازن، سانس لینے، دل کی دھڑکن اور بہت کچھ کو منظم کرنے کے لیے آپ کے باقی جسم کو پیغامات بھیجتا ہے۔

یہ ہمارے جسم کو دماغ سے رابطے میں رکھتا ہے۔ یعنی ریڈھ کی ہڈی دماغ اور باقی جسم کے درمیان بنیادی رابطے کا راستہ فراہم کرتی ہے۔۔ ریڑھ کی ہڈی کی حیاتی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ جسم کی تمام "حرکتوں" کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔۔ ریڑھ کی ہڈی کی مدد سے ہم دوسرے "اعضاء" کے ساتھ مختلف حرکات اور "توازن" کو برقرار رکھنے کے قابل رہتے ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی "Spinal cord" ایک شگاف ہے یہ انسانی جسم کو صحت مند رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دوستوں سے گزارش ہے کہ اس کی حفاظت اور دیکھ بھال کو بنیادی اہمیت دے تاکہ ہم اس کے فوائد سے کما حقہ مستفید ہو سکیں۔

ریڑھ کی ہڈی انسان کے جسم کا وہ حصہ ہے۔ جسکے ذریعے انسان کے جسم کا ہر حصہ دماغ سے منسلک رہتا ہے۔ ہمارے جسم کا ہر عضو اس کی وجہ سے کنٹرول ہوتا ہے تو اگر خدانخوستہ سپائنل کارڈ ڈیمیج ہوجائے تو کیا ہوگا؟ کیا اس کا علاج ممکن ہے؟ اگر ممکن ہے۔ تو دنیا کا کونسا ملک اس کا علاج کررہا ہے؟

ریڑھ کی ہڈی جب ٹوٹتی ہے تو اس کی وجہ سے دماغ کا جسم کے نچلے "حصوں" سے رابطہ بالکل "ختم" ہو سکتا ہے۔ ایسے میں چلنا پھرنا اور اٹھنا بیٹھنا ممکن نہیں رہتا۔ مطلب آپ مکمل طور پر دوسرے پر انحصار کرنے لگیں گے۔ ریکوری عموما بہت سست اور معمولی ہوتی ہے۔۔ بلکہ اگر میں کہوں کہ اسکا علاج پوری دنیا میں ممکن بھی نہیں، تو غلط نہیں ہوگا۔ کیونکہ اگر اس کا علاج ممکن ہوتا، تو آج منیبہ مزاری ویل چیر پر نہیں ہوتی، انکے پاس کس چیز کی کمی ہے سب کچھ اس کے پاس ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہ ویل چیر کے بغیر نہیں چل سکتی۔

سمندر میں بجھائی جانے والے فائبر آپٹک کیبل دیکھنے میں ایک موٹی کیبل نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں وہ "فائبر آپٹک" نہیں ہوتا بل کہ مین رابطے کا کیبل اس کے اندر ہی ہوتا ہے اور وہ کیبل بہت ہی باریک ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ریڈھ کی ہڈی کے اندر ہی جو باریک ریشے ہوتے ہیں۔ اصل کام وہ سرانجام دیتے ہیں۔ انہیں ریشے دیکھنے کے لیے ایک طاقتور خردبین کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ ریشے آپ کے اعصابی نظام کا حصہ ہیں۔ اگر اس ریشے میں کوئی خرابی آجائے تو انسان کو باقی ماندہ زندگی "وہیل چیئر" ہی پر گزارنا پڑتی ہے۔

اس مواصلاتی نظام کے حساس اور انتہائی نازک کیبل یعنی حرام مغز کی بتی کو ریڑھ کی ہڈی تین تہوں کے اندر محفوظ رکھتی ہے۔ ان تہوں کے اندر اس بتی کو ایک سیال مادے نے گھیر رکھا ہوا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے یہ نازک کیبل جھٹکوں سے بچا رہتا ہے۔ ریڈھ کی ہڈی ہڈیوں کے 33 مہرے الگ سے اس کی حفاظت کی ذمہ داری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ریڈھ کی ہڈی سے اعصابی تاروں کے 31 جوڑے باہر نکلتے ہیں۔ انہیں حرام مغز کے "Spinal Nerve" کہا جاتا ہے۔ ان میں سے تقریباً آدھے حساس ہوتے ہیں اور جسم سے آنے والے پیغامات کو دماغ تک پہنچانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ جبکہ باقی اعصابی تار دماغ کے احکامات کو پٹھوں تک پہنچاتے ہیں۔

بعض حالات میں اتنا وقت نہیں ہوتا کہ ایک اطلاع دماغ کو پہنچا کراس کے احکامات کا انتظار کیا جائے۔ اس ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیےحرام مغز کی بتی از خود "چھوٹے موٹے فیصلے" کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایسے میں حرام مغز کی بتی وقت ضائع کرنے کی بجائے خود ہی عمل کرتی ہے اور آپ کا ہاتھ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں گرم پتیلی سے ہٹ جاتا ہے۔ ڈاکٹرز کا ماننا ہے کہ حرام مغز کی "بتی" میں کسی خرابی کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

اللہ تعالی نے ہمارے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے گرد سیری سپائنل فلیوڈ نامی پانی کا ایک نظام بنایا ہے۔ جس میں گاڑھا پانی ہمیشہ گردش میں رہتا ہے۔ ڈاکٹرز کا ماننا ہے کہ اس کا فائدہ یہ ہے کہ دماغ کھوپڑی کی ہڈیوں میں پڑا نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ تیرنے کی سی کیفیت میں ہوتا ہے۔ جس سے اس پر ہڈیوں کا دباؤ اور چوٹ نہیں پڑتی۔ یہ پانی دماغ اور حرام مغز کو بیرونی چوٹوں سے بھی بچاتا ہے اور اس کے کچھ اور فوائد بھی ہیں۔ اس میں انفیکشن کے بھی امکانات ہوتے ہیں اور اس کا پریشر بھی کم زیادہ ہو سکتا ہے۔ نومولود بچوں میں بعض اوقات اسکی معمولی مقدار نکال کر اسکا پریشر اور مختلف جراثیم کیلیے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ آپ کائنات کے اندر نہیں بلکہ خود ہی ایک کائنات ہو۔

ایک آخری بات۔ منیبہ کی وہیل چئیر دیکھیں اور بتائیں کہ کتنے لوگوں کے پاس ایسی پرفیکٹ فٹ وہیل چئیرر دیکھی؟

جس پر بیٹھے وہ خود نمایاں دکھیں نہ کہ ان کی وہیل چئیر ساری اٹینشن لے جائے۔

Check Also

Tanhai Ke So Saal

By Syed Mehdi Bukhari