Gandum Ki Allergy
گندم کی الرجی
بیس سالہ بی ایس اسلامیات کی طالبہ سجًو (ساجدہ) ایک ایسی جینیاتی بیماری سے متاثر ہیں کہ وہ گندم کی روٹی نہیں کھا سکتیں۔ وہ جزوقتی فری لانسر ہیں اور اپنی سافٹ اسکلز کے ذریعے اتنے پیسے کما لیتی ہیں کہ انکی پڑھائی اور دیگر اپنی ضروریات اچھے سے پوری ہو سکیں۔ یہ بات انکے ڈاکٹر نے ہی انکو بتائی تھی کہ اس مرض سے متاثرہ مریضوں کو روزگار میں سافٹ اسکلز جلد از جلد سیکھ لینی چاہیے۔
اس بیماری سے متاثرہ مریض گندم کے دانے میں پائی والی ایک پروٹین "گلوٹن" کو ہضم نہیں کر سکتے۔ انکی چھوٹی آنت اس پروٹین سے الرجک ہوتی ہے۔ اس بیماری کو اردو میں"گندم کی الرجی" انگلش ٹرمنالوجی میں سیلئیک ڈی زیز Celiac Disease کہتے ہیں۔ گندم کی الرجی ہونے کی بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ خون میں ہوموگلوبین کی مقدار باوجود آئرن سپلیمنٹ کے مسلسل کم رہتی ہے اور گاہے بگاہے موشن ہو جاتا ہے یا پیٹ میں گیس ہو جاتی ہے۔
اس بیماری کے مریضوں کا کمزور مدافعتی نظام، گندم میں پائی جانے والی مختلف اقسام کی پروٹین کے خلاف ردعمل کا اظہار کرتا ہے۔ گندم میں موجود پروٹین "گلوٹین" (Gluten) سے پیدا ہونے والی الرجی کو گلوٹن الرجی بھی کہتے ہیں۔ اس الرجی کے سبب سے چھوٹی آنتوں میں سوزش اور ورم پیدا ہو جاتا ہے اور شدید نوعیت میں چھالے دیکھے جا سکتے ہیں جس سے مریض کی چھوٹی آنتوں میں غذائی اجزاء کا انجذاب متاثر ہوتا ہے۔ اس الرجی کے شکار بچوں کا قد اور وزن، ان کی عمر کے حساب سے نہیں بڑھتا اور اس کی علامات بھی ڈائجسٹو ڈس آرڈر سے ملتی جلتی ہیں۔ گندم الرجی ایک بار میں ایک یا کئی عضوی نظام کو متاثر کر سکتا ہے۔
سجو کے ابو سے انکو یہ بیماری وراثت میں ملی تھی۔ سجو کی پیدائش کے چند دن ہی انکے والدین میں علیحدگی ہوگئی تھی۔ اس علیحدگی کی وجہ یہ تھی کہ سجو کے ابو نے انکی امی کو شادی سے پہلے یہ بات نہ بتا کر دھوکہ دیا کہ وہ گندم کا آٹا نہیں کھا سکتا۔ اور وہ اب اتنا کمزور ہو جائے گا کہ شاید چل پھر بھی نہ سکے۔ جب سجو کی امی کو معلوم ہوا کہ یہ بیماری بچوں میں بھی جانے کے امکانات ہیں تو انہوں نے پیٹ میں موجود زندگی کو جنم دینے کا فیصلہ کیا اور دوسرا فیصلہ بچے کی پیدائش کے بعد سسرال چھوڑ دینے کا تھا۔ بیٹی کی پیدائش کے چند دن بعد سجو کی نانی اور ایک ماموں آئے اور سجو کو وہیں چھوڑ کر اسکی والدہ کو ساتھ لے گئے۔
سجو کہتی ہیں کہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔ انکے والد کو بھی شادی کے بعد معلوم ہوا تھا کہ وہ اس جینیاتی بیماری میں مبتلا ہیں۔ یعنی انکی تشخیص شادی کے چھ ماہ بعد ہوئی۔ مگر یہ بات انکی امی اور انکے میکے والوں نے نہ مانی۔ اس سے پہلے ان کے جینز میں متاثرہ جین سویا ہوا تھا۔ جیسے ہی شادی ہوئی وہ جاگ گیا۔ یا پتا نہیں کیسے یہ بیماری ایک دم زندہ ہوگئی۔ جب بھی ابو روٹی کھاتے پیٹ میں مروڑ پڑنے لگتے۔ گیس ہو جاتی پیٹ پھول جاتا۔ جسم پر لال نیلے نشان پڑنے لگے۔
چترال کے ضلعی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے پہلی بار اس بیماری کی تشخیص کر کے بتایا کہ گندم کا آٹا کھانا چھوڑ دو۔ گلوٹین فری آٹا کھانا ہوگا۔ جو اس پاکستان میں ملنا نایاب تھا۔ ابو جوار کا آٹا اور ڈاکٹر کی بتائی ہوئی چیزیں کھانے لگے اور پھر اپنے ایک لندن پلٹ دوست کو بتایا تو انہوں نے لندن سے وہ آٹا بھیجنا شروع کر دیا۔ وقت گزرتا گیا گلوٹین فری آٹا یہاں بھی ملنے لگا اور زندگی گزرتی رہی۔ اب تو بڑے شہروں کی مارکیٹس میں گلوٹین فری کافی چیزیں مل جاتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ انکی بیماری کی تشخیص 6 ماہ کی عمر میں ہی گندم اور جو کا دلیہ کھانے سے ہونے والے انفیکشن سے ہی ہوگئی تھی۔ اس بیماری کی تشخیص کافی مشکل ہے اور دنیا بھر میں کئی مریض بغیر تشخیص ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ علامات کو جاننے کے بعد خون کے کچھ ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ کنفرمیشن ٹیسٹ چھوٹی آنت سے گوشت کا ایک چوٹا سا ٹکڑہ (بیاپسی) لیکر اسکا لیبارٹری ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ وہ پازیٹو ہو تو باقی کی تمام عمر گندم اور گلوٹین والی سب چیزیں چھوڑ دینی ہوتی ہیں۔
کیونکہ کھانے میں آپشن محدود ہوتی تو جسم کو ضروری وٹامنز اور منرلز نہیں مل پاتے تو جسم کمزور ہو جاتا ہے۔ یہ بیماری دنیا بھر میں 100 لوگوں میں سے ایک کو ہوتی ہے۔ یہ مرد و خواتین میں یکساں پائی جاتی ہے۔ یہ بیماری نسل بڑھانے کی صلاحیت "فرٹیلٹی" کو متاثرہ مرد و خواتین میں یکساں معمولی طور پر متاثر کرتی ہے۔ یعنی وہ والدین بننے میں مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بچوں میں اس بیماری کے ٹرانسفر ہونے کا چانس 5 سے 10 فیصد ہوتا ہے۔
جن لوگوں کو یہ الرجی ہو انہیں گندم اور اس سے متعلق (جیسے میدہ، سوجی) سے بنی ہر شے سے احتیاط کرنا چاہئے۔ ڈاکٹرز کے مطابق ویٹ الرجی میں چار چیزوں سے احتیاط کرنا ہوتی ہے: Barely، Rai، Oats اور Wheat۔ جن کا مخفف BROW بنتا ہے۔ ویٹ الرجی کے شکار لوگوں کو چاہئے کہ وہ چاول کا استعمال کریں۔ پیکٹ میں بند شے (مثلاََ چاکلیٹ) خریدتے ہوئے اس پر دئیے گئے اجزاء کو ضرور پڑھ لینا چاہئے کہ آیا ان میں گندم وغیرہ سے متعلقہ کوئی شے تو نہیں۔
اچھی کمپنیاں تو باقاعدہ جلی حروف میں Wheat یا Oats یا Glutton لکھتی ہیں۔ سویا ساس میں بھی گلوٹن ہوتا ہے اس سے بھی احتیاط کرنا چاہئے۔ بعض کمپنیوں کے کارن سیریلز میں بھی اس کی ملاوٹ ہوتی ہے اگرچہ وہ لکھتے نہیں۔ ہومیو پیتھی ماہرین کا کہنا ہے کہ ویٹ الرجی اگر کم سطح کی ہو تو اس کا علاج ممکن ہے۔ بنیادی طور پر لائف سٹائل کو بدل کر ایک اچھی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔