Future Planning
فیوچر پلاننگ
سعودی عرب کے شہر جدہ میں ایک لیڈیز ٹیلر کی دکان تھی۔ گلف میں ٹیلرنگ شاپس کی عمومی پریکٹس یہ ہے کہ دکان میں ایک معلم اور ایک یا ایک سے زائد کاریگر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر سوٹ کی سلائی سو ریال ہے تو کاریگر کو 45 ریال ملیں گے۔ 55 ریال معلم لے گا۔ معلم سوٹ کاٹ کر سلائی کے لیے دیتا ہے دکان کا کفیل کے بعد ایک طرح سے مالک ہوتا ہے دکان کا کرایہ بجلی کا بل اور کفیل سے طے شدہ بھتہ وہ ہی ادا کرتا ہے۔ کیونکہ دکان کفیل کے نام پر اوپن ہوتی ہے۔ معلم اور کاریگر اپنی کفالت اور اقامہ وغیرہ خود ہی لگواتے ہیں۔ کھانا پینا رہائش وغیرہ بھی دونوں کی اپنی ہوتی ہے۔
خیاط یعنی ٹیلرنگ مارکیٹ میں ایک دکان ایسی تھی جہاں سب سے فینسی کام ہوا کرتا تھا۔ جو کام کوئی نہیں کر سکتا وہ کام اس شاپ پر جاتا تھا اور ظاہر ہے ریٹ بھی اسکا ویسا ہی ہوتا تھا۔ عروسی لباس اور شاہی خاندان کی خواتین کے کاسٹیومز۔ جن کی سلائی ہزاروں ریال ہوا کرتی تھی۔ مگر اس دکان میں ایک ہی معلم تھا جو خود سوٹ کاٹتا اور خود ہی سلائی کرتا۔ نوے فیصد کام وہ واپس کر دیا کرتا تھا کہ ایک بندہ کتنا کام کر سکتا ہے؟ سب سے مہنگا کام پکڑتا منہ مانگی قیمت پر اور ہزار پندرہ سو ریال کی دیہاڑی لگا لیتا۔ ہنر تھا اور منہ مانگی قیمت ملتی تھی۔ ہزار ریال سلائی ہوتی تو وہ اپنی ہی ہوتی نہ تو اوپر کوئی معلم یعنی کٹنگ ماسٹر تھا۔
پاکستان میں گھر کو گرا کر کوٹھی بنی، بیٹیوں کی منگنیوں اور شادیوں پر پورے خاندان کو حیرت میں ڈال دینے والے اخراجات کیے۔ بیٹے بلکل چھوٹے تھے۔ جب پاکستان چھٹی آتا تو دکان بند رہتی۔ بندہ ایسا تھا کہ جیسے ہی واپس جاتا پھر گاہکوں کی لائن لگ جاتی۔ ساتھ والی دکان کے ایک سینئیر کاریگر نے کہا کہ دو تین مہینے جو آپ پاکستان گزارتے ہیں۔ دکان کی چابی مجھے دے جایا کریں اور مجھ سے ایک ماہوار رقم طے کر لیں۔ وہ میں آپ کو دے دیا کروں گا۔ بولا نہیں دکان بند ہی اچھی ہے میرے گاہک بس مجھ سے ہی کام کرواتے ہیں۔ کاریگر نے کہا کہ آپ مجھے کام پر رکھ کر بتا دیں کہ آپ جیسا کام کرتے ہیں۔ آپ جیسا ہی کام میں کر سکتا ہوں۔ آپ سے ذیادہ کام کا تجربہ ہے۔ بولا مجھے منظور نہیں ہے۔
پاکستان چھٹی آیا۔ فالج کا اٹیک ہوا اور دائیں سائیڈ مکمل مفلوج ہونے کے ساتھ سپیچ بھی چلی گئی۔ پچاس سال عمر تھی۔ پاکستان اور سعودیہ بھی جا کر جو بن پڑا علاج کروایا مگر ایک فیصد بھی بہتری نہ آئی۔ اب مارکیٹ گیا کہ کوئی بندہ اس دکان کو مجھ سے ٹھیکے پر لے لے اور میرے اڈے کے پیسے مجھے ماہوار ادا کرتا رہے۔ وہ ڈیمانڈ بلکل مناسب تھی۔ مگر کوئی بھی ایگری نہ ہوا۔ سب کو یہی تھا کہ اس نے تو اب آنا نہیں۔ دکان کفیل بیچ دے گا ہم خرید لیں گے۔ کام ہم کریں اور اس کو فری میں ہر ماہ کس بات کے پیسے بھیجیں؟ جب اسے کہتے تھے تو بات ہی نہیں مانتا تھا۔ اب جائے واپس اور دکان کفیل سیل کرے۔ اس نے پاکستان سے ایک بندے کو تیار کیا کہ دکان چلا سکے مگر اسکے پاس ویسی اسکل نہیں تھی زبان نہیں تھی آتی اور چند ہی ماہ بعد دکان مسلسل خسارے میں جانے لگی اور اس بندے نے کفیل کی ایک دکان پر ایک معلم کے انڈر کام کرنا شروع کر دیا۔
دکان برائے فروخت کا بورڈ کفیل نے لگا دیا۔ اب سب سے پہلا خریدار جو وہاں گیا وہ وہی کاریگر تھا جس نے اسے آفر دی تھی کہ مجھے بس اپنی چھٹی کے وقت چابی دے جایا کرو۔ دکان میں کونسا خزانہ رکھا ہے۔ میں نے جو سوٹ آنا ہے وہ سلائی کر دینا کرنا رننگ اخراجات میں ادا کر دوں گا۔ تم مجھ سے اضافی رقم بس اڈے کی بھی ریگولر لیتے رہنا۔ اس نے دکان پچاس ہزار ریال میں خرید لی۔
اس کا کہنا تھا کہ یہی کام وہ بندہ اپنی صحت کے دنوں میں کر لیتا۔ اپنے گاہکوں سے میرا تعارف کروا دیتا۔ مجھے تھوڑا ٹرین کر دیتا اور اتنا اعتماد دیتا کہ میں اسکے بعد بھی اسکے گاہکوں کو ڈیل کر سکوں۔ میرے ساتھ ایک قانونی معاہدہ کر لیتا کہ مالک وہ ہی رہے گا ماہانہ فکس اماؤنٹ میں اسے دیتا رہوں گا وہ دکان پر آئے یا نہیں۔ یہ اسکے گاہکوں اور اڈے کی قیمت ہونی تھی۔ جو اسے ایک لمبے عرصے تک ملنی تھی اور اب جب کہ وہ مفلوج ہو چکا ہے اس کو اس معاہدے اور اپنے راز مجھے بتانے کا فائدہ ملنا تھا۔ مگر اسکی قسمت کہ اس نے خود کو ہی عقل کل سمجھا اور مستقبل کی پلاننگ نہ کی۔ جو کمایا ویسے ہی اڑایا اور آج پائی پائی کا محتاج ہے۔
جس بندے کو اس نے اب بھیجا وہ پہلے سے موجود کاریگر کے پاس آتا تو وہ مالک بن کر آتا۔ کیونکہ بھیجنے والا کا داماد تھا اور سسر کی دکان کا بس حساب ہی لیتا رہتا تو ماہانہ ہزاروں ریال کمائی ہوتی۔ ساتھ کام بھی سیکھ کر اس نے معلم ہی بننا تھا نہ کہ ایک اور معلم کے پاس جا کر کاریگر۔
مگر بدقسمتی سے ہم پاکستانی نہ یہاں نہ گلف اور یورپ میں ایسی کوئی پلاننگ کرتے ہیں کہ ہماری دکان، کوئی سروس یا سمال بزنس ہمارے بیمار ہونے یا مر جانے کی صورت میں کون چلائے گا؟ ہمارا اتنا جگرا اور حوصلہ ہی نہیں ہے کہ وہاں کسی کے ساتھ یا گھر سے کسی بھائی بہنوئی بھانجے بھتیجے کو بلا کر اپنے ساتھ ٹرین کریں۔ اپنے بزنس Secrets اسے بتائیں۔ اسے اعتماد دیں۔ اسکی اجرت سے کچھ ذیادہ پیسے اسے ادا کریں کہ وہ ملازم نہیں مالک خود کو فیل کرے۔ اسکے ساتھ ایک معاہدہ لکھ لیں کہ کسی آنجہانی صورت میں دکان یا اس سروس کے مالک آپ ہی رہیں گے۔ وہ قائم مقام مالک تصور ہوگا اور کسی قابل پارٹنر شپ ایکسپرٹ وکیل سے مل کر اسکی فیس ادا کر شرائط و ضوابط طے کر لیں۔ جن کی خلاف ورزی پر قانونی چارہ جوئی ہو سکے اور اگر قائم مقام فرد کوئی ہیرا پھیری کرے تو اس کو ہٹا کر کوئی نیا فرد وہاں لایا جا سکے۔
مگر ایسی سوچ اور ایسا دل اور ظرف ہزار میں سے ایک دو لوگوں میں دیکھنے کو ملے گا۔ میرا ایک بھائی رومانیہ ہے، ایک اٹلی ہے ایک اسپین ہے۔ وہ جہاں کام کر رہے ہیں وہاں سمال سیٹ اپس پر ہی کام کر رہے ہیں۔ ان کی مدد سے مجھے یہ انفارمیشن ملی ہے کہ وہاں سمال بزنس حتی کہ ایک سبزی فروٹ کی گاؤں میں دکان کو چلانے کا بھی ایک سسٹم موجود ہے۔ وہاں بیٹھا فرد مر جائے یا بیمار ہو جائے اگلے دن سے کوئی بھی فرد اس بزنس کو ٹیک آپ کر سکتا ہے۔
مگر یہاں؟ اول تو راز کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ حتی کہ اسکی بیوی اور بچوں کے پاس بھی کوئی علم یا بزنس کا لین دین نہیں ہوتا۔ ادھر بندہ مرا یا کسی وجہ سے لمبے عرصے کے لیے جیل چلا گیا یا شدید قسم کا بیمار ہوا، یا تو کام ٹھپ یا کوئی قریبی رشتہ دار اس کام کو مقروض ظاہر کرکے اسے ہتھیا لیتا ہے اور بیوی بچے فاقوں پر آجاتے ہیں۔ اس ضمن میں شعور اور دل بڑا کرنے کی بہت اشد ضرورت ہے۔ زندگی کے اندر جو حصہ کسی کو دیں گے وہ ہمارے مرنے یا فالج ہوجانے کے بعد ہزاروں گنا فائدے کے ساتھ ہمارے اہل و عیال وصول کریں گے۔ بات صرف سوچ کی ہے کہ سب کچھ بس میرے ہاتھ ہی رہے۔ تو زندگی کے کسی موڑ پر آپ کو اس سوچ کی قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔ آج ہی اپنی سوچ بدلیے اور فیوچر کی پلاننگ کیجئے۔