Tuesday, 18 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Black Warrant

Black Warrant

بلیک وارنٹ

یہ 1978 کی بات ہے، نئی دہلی میں دو ٹین ایجر بہن بھائی آل انڈیا ریڈیو کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے گھر سے نکلے۔ گیتا سیکنڈ ائیر اور سنجے میٹرک کا طالب علم تھا۔ یہ کوئی سوا چھ بجے شام کا وقت تھا۔ انھیں سات بجے ریڈیو اسٹیشن پہنچنا تھا۔ ایک شخص ایم ایس نندا نے انھیں گول ڈاک خانہ تک لفٹ دی۔ وہاں سے ریڈیو اسٹیشن جانے کے لیے انھوں نے ایک اور کار دیکھ کر لفٹ مانگی اور اس کے رکنے پر بیٹھ گئے۔

اس کے بعد کی کہانی سنسنی خیز ہے۔ ساڑھے چھ بجے ایک شخص بھگوان داس نے سڑک پر جاتی کار سے چیخوں کی آواز سنی اور اپنی موٹرسائیکل روک لی۔ اس نے دیکھا کہ ایک لڑکی ڈرائیور کے بال کھینچ رہی ہے اور ایک لڑکا دوسرے شخص سے کھینچا تانی کررہا ہے۔ بھگواس داس نے کار روکنے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی۔ کئی اور افراد نے بھی یہی چاہا لیکن کار نہ روک سکے۔ ایک نوجوان بابولال نے اپنی سائیکل سے اتر کے کار پر جھپٹنا چاہا لیکن ناکام رہا۔ اس نے پولیس کو فون کرکے معاملے سے آگاہ کیا۔

ایک اور شخص اندرجیت سنگھ نے کسی اور سڑک پر کار کو دیکھا۔ اس میں موجود لڑکی چیخ رہی تھی اور لڑکے نے اپنا زخمی کندھا اندرجیت سنگھ کو دکھایا۔ اس نے اپنے اسکوٹر پر کار کا پیچھا کیا لیکن رفتار کا ساتھ نہ دے سکا۔ اس نے کار کا نمبر نوٹ کرکے پولیس کو اطلاع فراہم کردی۔

آٹھ بجے والدین نے ریڈیو آن کیا تاکہ اپنے بچوں کی آواز سن سکیں لیکن وہاں کوئی اور لڑکی بول رہی تھی۔ وہ سمجھے کہ غلط اسٹیشن لگ گیا ہے۔ باپ، جو نیوی افسر تھا، پونے نو بجے بچوں کو لینے ریڈیو اسٹیشن پہنچا۔ وہاں اسے بتایا گیا کہ بچے تو آئے ہی نہیں۔ اس نے گھر فون کیا۔ بیوی نے بتایا کہ بچے نہیں آئے۔

اسی شب دس بجے ولنگنڈن اسپتال میں دو نوجوان آئے جن میں سے ایک کے سر پر چوٹ لگی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ چوروں سے لڑائی میں یہ چوٹ آئی ہے۔ یہ پولیس کیس بنتا تھا اس لیے ان کی مرہم پٹی کے بعد وہاں موجود ایک کانسٹیبل نے تھانے کو رپورٹ کردی۔ دو پولیس والے آئے اور نوجوانوں کی بات سنی۔ ان سے کہا کہ یہ واقعہ کدھر ہوا ہے۔ وہ نوجوان ایسے ہی کہیں لے گئے اور پولیس والوں کو اس مقام سے کسی جھڑپ کے آثار نہیں ملے۔ انھوں نے کہا کہ صبح آکر رپورٹ لکھوانا۔

وہ نوجوان واپس نہیں آئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اسپتال میں بھی نام جعلی بتائے تھے۔ ایڈرس بھی غلط تھا۔ وہ جس کار میں آئے تھے، اس کا نمبر چیک کیا تو ایک موٹرسائیکل کا نکلا۔ معاملہ گڑبڑ تھا۔

دو روز بعد شام چھ بجے ایک گوالا دھنی رام اپنی گایوں کو چرارہا تھا کہ اس نے بچوں کی لاشیں دریافت کیں اور پولیس کو مطلع کیا۔ وہ گیتا اور سنجے کی لاشیں تھیں اور خراب ہورہی تھیں۔ والدین کو خبر کی گئی اور انھوں نے آکر شناخت کرلیا۔

یہ واقعہ میڈیا میں آیا اور شور مچ گیا۔ اس وقت مرار جی ڈیسائی وزیراعظم تھے۔ انھوں نے اس میں ذاتی دلچسپی لی۔ پولیس نے کافی زور لگایا۔ کار ڈھونڈ لی جو چوری کی تھی۔ اس میں کئی نمبر پلیٹیں تھیں۔ خون کے دھبے اور مجرموں کے فنگرپرنٹس تھے۔

وہ دو نوجوان، جن کے نام کلجیت سنگھ اور جسبیر سنگھ تھے، بمبئی کے رہنے والے تھے اور وہاں بھی چوریوں ڈکیتیوں میں مطلوب تھے۔ اب نئی دہلی سے بھی بھاگے۔ وہ کسی قصبے کے قریب سست ہوتی ٹرین پر چڑھ گئے لیکن ان کی بدقسمتی کہ وہ ڈبا فوجیوں کے لیے مخصوص تھا۔ انھوں نے دونوں سے شناختی کارڈ مانگے تو وہ الجھ پڑے۔ فوجیوں نے باندھ کر ایک طرف ڈال دیا اور اگلے اسٹیشن پر پولیس کے حوالے کردیا۔

دونوں ملزموں نے اپنے بیان میں کہا کہ انھوں نے بچوں کو تاوان کے لیے اغوا کرنا چاہا لیکن جب معلوم ہوا کہ وہ نیوی افسر کے بچے ہیں تو خیال ہوا کہ وہ بڑی رقم نہیں دے سکے گا۔ اس لیے بچوں کو قتل کردیا۔ پوسٹ مارٹم سے ریپ کا اندازہ نہیں لگایا جاسکا کیونکہ لاشیں دیر سے ملیں اور خراب ہوچکی تھیں۔

عدالت میں مقدمہ چلا اور ملزم اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔ لیکن ان کے خلاف شواہد مضبوط تھے۔ انھیں سزائے موت سنادی گئی۔ سپریم کورٹ تک نے سزا برقرار رکھی اور صدر نے رحم کی اپیل مسترد کردی۔

مجرم تہاڑ جیل میں قید تھے۔ سزائے موت سے پہلے کئی صحافیوں نے ان کا انٹرویو کرنے کی درخواست کی لیکن جیلر نے انکار کردیا۔ صحافی عدالت میں چلے گئے اور فیصلہ ان کے حق میں ہوا۔ جن صحافیوں نے مجرموں کے انٹرویو کیے ان میں پربھا دت شامل تھیں جو آج کی مشہور اینکر برکھا دت کی والدہ تھیں۔

یہ انٹرویو 30 جنوری 1982 کی شام کو ہوئے۔ اگلی صبح چھ بجے مجرموں کو پھانسی دے دی گئی۔

میں نے واقعات ذرا تفصیل سے لکھ دیے۔ ان کی ایک جھلک آپ نئی انڈین ویب سیریز بلیک وارنٹ میں دیکھ سکتے ہیں جو نیٹ فلکس نے حال میں پیش کی ہے۔ قاتلوں کا انجام دوسری قسط میں دکھایا گیا ہے۔

برکھا دت نے سیریز میں اپنی ماں کے نام کو بدلنے پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ سیریز میں باقی سب نام اصلی استعمال کیے گئے ہیں۔

یہ سیریز سنیل گپتا کی کتاب بلیک وارنٹ، کنفیشنز آف اے تہاڑ جیلر پر بنائی گئی ہے۔ اگر کوئی دوست کتاب پڑھنا چاہے تو ای بک طلب کرسکتا ہے۔ سنیل گپتا نے بکنی کلر چارلس سوبھراج کا بھی ذکر کیا ہے اور سیریز میں بھی دکھایا گیا ہے۔ بلکہ سنیل گپتا کو جب جوائننگ میں مشکل پیش آئی تو چارلس سوبھراج نے ان کی مدد کی۔

Check Also

Project Imran Khan Bohat Mehanga Par Raha Hai

By Irfan Siddiqui