Bain Ul Mazahib Hum Ahangi Aur Quran Sozi
بین المذاہب ہم آہنگی اور قرآن سوزی
اُنیسویں صدی کے ایک معروف جرمن شاعر اور ڈرامہ نگار ہنری ہائین Heinrich Heine نے آج سے سو سال پہلے اپنی ایک نظم میں کتابوں کو جلانے اور لوگوں کے مذہبی احساسات کو مجروح کرنے کے بارے میں لکھا تھا کہ جو لوگ کتابوں کو جلاتے ہیں وہ آخر کار لوگوں کو بھی جلا دیتے ہیں۔ اور پھر نازی جرمنی میں ایسا ہی ہوا اُنیس سو تینتیس میں بہت ساری کتابوں کو جلایا گیا جن میں جرمن شاعر اور ڈرامہ نگار ہنری ہائین کی کتابیں بھی شامل تھیں پھر اُسی جگہ اس کے کچھ ہی سال بعد تقریباً ساٹھ لاکھ انسانوں کو ہولناک حالات میں موت کا نشانہ بنایا گیا۔
کتابیں جلانے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ سلسلہ تیسری صدی قبل مسیح سے چلتا آ رہا ہے، سکندر اعظم کے بعد بطلیموس ثانی (Ptolemy II) مصر کے علاقہ کا حکمران بنا، اس کا زمانہ تیسری صدی ق م ہے۔ وہ ذاتی طور پر علم کا قدر داں تھا۔ اس نے اسکندریہ میں ایک کتب خانہ بنایا جس میں مختلف علوم کی تقریباً 5 لاکھ (500، 000) کتابیں تھیں۔ یہی وہ کتب خانہ ہے جو تاریخ میں کتب خانہ اسکندریہ (Library of Alexanderia) کے نام سے مشہور تھا۔
یہ کتب خانہ بعد میں (اسلامی دور سے پہلے) تباہ کر دیا گیا۔ اس کتب خانہ کے بارے میں غلط طور پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ کے حکم سے اس کو جلایا گیا۔ حالانکہ ظہورِ اِسلام سے بہت پہلے چوتھی صدی عیسوی میں اس کا وجود ختم ہو چکا تھا۔ 213 قبل مسیح میں چین میں کن خاندان کے پہلے شہنشاہ کن شی ہوانگ نے کتابوں کو جلانے اور علماء کو دفن کرنے کا حکم دیا تھا۔ رومی شہنشاہ قسطنطین دی گریٹ نے غیر متعصب آریائی باشندوں کی تمام کتابوں کو آگ لگوا دی تھی۔
اسپین میں جب مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تو عیسائیوں نے مسلمانوں کے قائم کردہ تمام کتب خانے جلا دئیے تھے۔ صلیبی جنگوں میں بھی مصر، شام، اسپین اور دیگر اسلامی ممالک کے کتب خانوں کو جلایا گیا۔ ہلاکو خان نے جب بغداد فتح کیا تو وہاں کے تمام کتب خانے دریائے دجلہ میں غرقاب کر دیئے۔ تاریخ یہی کہتی ہے کہ سینکڑوں کتب خانے راکھ کر دئیے گئے۔ عیسائیوں نے یہودیوں کے بے شمار مخطوطات جلائے۔
یورپ میں کتابوں کو جلانے کی ایک پوری تاریخ ملتی ہے جسے کبھی سیاسی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا تو کبھی یہ حربہ آمرانہ حکومتیں عوام الناس کو ڈرانے کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ اس طرح کتاب کو جلانا علامتی قتل یا علامتی تباہی بن جاتا ہے۔ کتابوں میں موجود سچائیوں کی وحشت خیزی جہاں جہاں ناقابل برداشت ہوئی وہیں انہیں آگ لگا دی گئی۔
یہ ہی وجہ ہے کہ آج تک قرآن کریم کو جس ملک کے بھی غلیظ باشندوں نے نذرِ آتش کیا وہ ہی اس میں موجود قیامت تک لکھی جانے والی اٹل پاک پاکیزہ سچائیوں سے ڈر گئے اور ہر دفعہ اس کو جلا کر اس میں سچائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتے رہے، مگر وہ بزدل، جہالت کے علمبردار اُس کتاب کے دشمن کہ جس کو لکھنے والا تمام جہانوں کا تخلیق کار ہے، نہیں جانتے ہیں کہ اس دنیا میں پائی جانے والی آگ، شعلے، اس کتاب کو جلانے والے انسان، ہاتھ، مقام، سب تباہ و برباد ہو جائیں گے، تہس نہس ہو جائیں گے مگر یہ کتاب باقی رہے گی۔
اور ان کی منافقت تو دیکھیئے کہ آزادی اظہار رائے کو بدنام کرتے ہوئے کبھی تو یہ ہمارے پیارے پیغمبر نبی آخر الزماں ﷺ کے خاکے بناتے ہیں اور کبھی اس دنیا کی سب سے مقدس کتاب کو جلا کر امن، سلامتی، ریسرچ و تحقیق علم دوستی کی بات کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن پاک کو بار بار نذرِ آتش کرکے یہ اپنی حد درجہ جہالت، انتہا پسندی، حد درجہ وحشیانہ پن اور خطر ناک دہشت گردی کا ثبوت دے چکے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ آج تک مسلمانوں نے جتنا بین المذاہب رواداری کا خیال رکھا ہے کسی دوسرے نے نہیں رکھا، مسلمانوں نے آج تک کسی مذہب کے مقدس صحیفوں کو نذرِ آتش نہیں کیا، کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں کے خاکے نہیں بنائے، مسلمانوں کے نزدیک بین المذاہب ہم آہنگی ہی دنیا میں امن اور محبت کی ضامن ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی سے مراد ہے کہ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئیں اور ایک دوسرے کے مذہبی صحیفوں، مقدس مقامات، برگزیدہ ہستیوں کی توہین و حرمت سے باز رہیں۔
بین المذاہب ہم آہنگی مختلف مذاہب کے درمیان اور دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کے لیے پُر امن بقائے باہمی اور خوشحالی کا راستہ فراہم کرتی ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی رنگ، نسل، ذات پات، زبان، قوم ہر طرح کے امتیازات سے بالاتر ہو کر معاشرے میں رواداری کے قیام کے لیے اہم ہے۔ مذہبی ہم آہنگی کے لیے مکالمہ نہایت ضروری ہے تاکہ عالمگیریت کی دنیا میں مذہبی تنوع کو سمجھتے ہوئے انسانی مواخات کو فروغ دیا جا سکے۔
1976 میں امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں ایک پادری نے Foundation for dialogue between Judaism، christanity، and islam کے نام سے ایک تحقیقی مقالہ لکھا جس میں لکھا گیا کہ "سیدنا ابراہیمؑ کی شخصیت مرکزی مقام کی حامل ہے اس حوالے سے تینوں ملتیں (اسلام، یہودیت، مسیحیت) مل کر ایک دوسرے کے مسائل سن کر اپنے لیے متفقہ لائحہ عمل طے کر سکتی ہیں۔
"مگر مغرب والوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا یورپ کے دوہرے معیار کے سامنے آج شدت پسندی اور انتہا پسندی کی نذر ہوتی، بین المذاہب رواداری کے پیش نظر، سویڈن، ڈنمارک، ناروے، نیدرلینڈز میں قرآن پاک جلانے کے واقعات ہوں یا پھر نبی کریم ﷺ کے گستاخانہ خاکے بنا کر مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا مقصود ہو۔ ہر چند امن بقائے عالم داؤ پر لگا ہے۔
سقوط سپین سے لے کر سلطنتِ عثمانیہ تک اور اس کے بعد سقوط برصغیر سے لے کر یورپین اقوام کا دنیا کی سیاست پر راج کرنے تک ان سب حالات میں آج تک دنیا میں بے شمار خون خرابہ ہو چکا ہے۔ احترام انسانیت کو پامال کیا جا چکا ہے اور دیگر جنگوں کے علاوہ مہذب قوموں کی دو عالمی جنگوں نے دنیا کو ہلا کتوں کے تحفے دیے جن کے سامنے غیر مہذب قوموں کی لڑائیاں ہیچ ہوگئیں۔
سائنس و ٹیکنالوجی اور حالاتِ حرب کی مسابقت کی دوڑ نے انسانوں کو ایک تیسری عالمی جنگ کے خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ایسے میں ہر دفعہ محض کچھ عرصے کے فرق سے آزادی اظہارِ رائے کے نام پر قرآن مجید کو جلانا نبی کریم ﷺ کے گستاخانہ خاکے بنانے بین المذاہب ہم آہنگی کی راہ میں حائل ایک دیوار کی طرح ہے۔ آزادی اظہارِ رائے کا غلط استعمال نا صرف مسلمانوں کو دُکھی کر رہا ہے بلکہ اس سے عالمی امن بھی متاثر ہو رہا ہے۔
مغربی ذہنی مریض آزادی اظہارِ رائے کے نام پر صرف مسلمانوں کے مقدسات کی توہین ہی کیوں کرتے ہیں کیا وہ مسلمانوں کو اتنا کمزور سمجھتے ہیں یا ان کو اپنا غلام سمجھتے ہیں؟ اس سوال کا جواب مسلمانوں کو اپنے عمل سے دینا ہوگا یہ چاہے جو بھی کر لیں دنیا کا چاہے جو ملک بھی قرآن کو جلا کر ختم کرنے کی کوشش کرے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان نفسیاتی مریضوں کے جسم جل کر راکھ بن کر ہوا میں اُڑ جائیں گے مگر یہ اسلام، قرآن، نبی آخرالزمان ﷺ کی محبت اُن کی تعلیمات کسی انسان کے دل سے بھی نہیں نکال پائیں گے کیونکہ اسلام کی فطرت میں قدرت نے ہی لچک رکھی ہے اس کو جتنا دبایا جائے گا یہ اُتنا ہی اُبھرے گا۔