Mehngi Bijli Azaab Se Kam Nahi
مہنگی بجلی عذاب سے کم نہیں
دکھائی یوں دیتا ہے کہ واپڈ ہاوس کے ٹھنڈے کمروں میں برا جمان افسر شاہی پر مو سمیاتی تبدیلی کے اثرات مرتب نہیں ہوئے، انھیں کیا معلوم کہ دل کے اُس مریض کی کیفیت کیا ہوتی ہے جو42 ڈگری پارہ اور لوڈشیڈنگ میں بستر پر دراز ہو، اس کے لواحقین پر کیا گزرتی ہے، واپڈا کے حاضر اور ریٹائرڈ ملازمین کی طرح مفت بجلی کی سہولت ایسے مریض کو میسر ہو تو وہ بھی ائرکنڈیشن افورڈ کر سکے۔
غالب آبادی بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت سے پریشان ہے، بجلی کا بل ادا کرنااب مشکل تر ہوتا جا رہا ہے، صارفین کو جب پتہ چلتا ہے کہ ایک لاکھ سرکاری ملازمین کو بجلی کی مفت سہولت میسر ہے، تو وہ اپنی بے بسی پر پشیمان ہوتے ہیں اس نا انصافی پر نہ تو کوئی عدلیہ از خود نو ٹس لیتی ہے نہ ہی عالمی مالیاتی اداروں پر گراں گزرتا ہے، تو انکا دکھ دو چند ہوجاتا ہے عالمی معاہدہ کی شرائط پر بجلی کے یونٹ کی قیمت میں اضافہ کرنا ارباب اختیار کی بے چارگی کو نمایاں کرتا ہے۔
وہ کیا زمانہ تھا جب 151سے300 یونٹ کی مالیت59 پیسے فی یونٹ تھی، یہ وہ دور تھا جب عالمی گماشتوں کے زیر اثر ا نڈیپنڈنٹ پاورپروڈیوسر (آئی پی پی ایس) کی پالیسی کا نفاذ نہیں ہوا تھا نہ ہی مہنگے ترین بجلی کے یونٹس نصب تھے، نوئے کی دہائی سے قبل زیادہ تر بجلی آبی وسائل سے پیدا کی جارہی تھی، کہا جاتا ہے کہ پانی اور بجلی کا سنہری دور 1960سے 1990تک ہی رہا پھرشعبہ جات میں زوال پذیری کا آغاز ہوا، اس کا نجام پانی کی کمی اور مہنگی ترین بجلی کی صورت میں سامنے ہے۔
وہ محکمہ جس کا منافع ہی 40 فیصد ہوتا تھا اب اس کے گردشی قرضوں کا حجم 2500 ارب سے زائد ہے، ایک زمانہ یہ بھی تھا اِسی محکمہ نے ایشیاء کی تیسری بڑی الیکٹرک ٹرین لاہور تاخانیوال چلائی، اب اپنے بجلی گھر چلانے مشکل ہورہے ہیں، قومی اسمبلی میں وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ کنڈے کے ذریعہ 230 ارب کی بجلی چوری کی جاتی ہے، کراچی الیکڑک کمپنی نے بجلی چوری کی روک تھام کے لئے علماء کرام سے فتوے بھی جاری کروائے ہیں، جنہوں بجلی چوری کرنے کے فعل کو قانوناً جرم اور حرام قرار دیا علماء کرام نے ماضی کے جرم پر صارفین سے توبہ کرنے کی التجا کی ہے۔
واپڈا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 70فیصد بجلی مہنگے ترین پلانٹ سے پیدا کرکے عوام کی چیخیں نکلوائی جارہی ہیں، ان کا موقف ہے کہ ہمارے پاس کوئلہ کے380 ٹریلین ٹن وسیع ذخائر موجود ہیں، صرف تھر کے علاقہ میں 186بلین ٹن کوئلہ موجود ہے، جو 50بلین ٹن آئل کے برابر ہے، اس سے اگر بجلی پیدا کی جائے تو اسکی صرف دو فیصد مقدار سے 40 سال تک بیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے۔ فی زمانہ دنیا توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے میں مصروف ہے۔
18ویں آئینی ترمیم کے بعد بجلی پیدا کرنے کا اختیار صوبہ جات کے پاس ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ پنجاب کالا باغ ڈیم کے نقشہ میں اگر معمولی تبدیلی کر لے جو صوبہ کے پی کے لئے قابل قبول ہو تو آبی وسائل سے انتہائی سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، نیز پانی کے سٹوریج سے زراعت کو بھی فائدہ ہوگا، زیادہ سے زیادہ زمین ذرخیز کی جاسکے گی، ماہرین کا خیال ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم بن جائے تو منگلا ڈیم کی ورکنگ اور لائف میں پچاس سال تک کا فائدہ ہوگا۔
اس وقت سب سے زیادہ زیر عتاب شعبہ واپڈا کاہے جس نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے، بجلی کے بلوں کی ادائیگی درد سر بنتی جارہی ہے، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹیڈیز نے مہنگی بجلی کی بابت ایک سروے کیا ہے، تجارتی اور گھریلو صارفین پرمشتمل آراء میں کہا گیا کہ بجلی کے بلوں کو ادا کرنے سے انکے گھریلو اور تجارتی بجٹ بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بہت سی ایسی پوسٹیں آپ لوڈ ہورہی ہیں، جن کو دیکھ کر دل جلتا ہے، ان کی غم گیر اور رندھی ہوئی آواز نجانے کب ارباب اختیار تک پہنچے گی، بجلی کے بل کی ادائیگی کے لئے جو اپنے گھر کی اشیاء بیچ رہے ہیں، یہ مطالبہ اب زور پکڑ رہا ہے کہ اشرافیہ اور واپڈا ملازمین سے مفت بجلی کی سہولت وآپس لی جائے اور بلوں سے غیر ضروری ٹیکسوں کا خاتمہ کیا جائے، بجلی کی چوری کو روکا جائے، اس میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ قومی اسمبلی میں چیرمین پبلک اکاوئنٹس کمیٹی کے سربراہ نے مفت بجلی دینے کی مخالفت کی ہے۔
توانائی کے ماہرین کاکہنا ہے کہ محکمہ ناقص میٹریل مہنگے داموں خرید رہا ہے دوسرا غیر ترقیاتی اخراجات میں 500 فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے، 13قسم کے زائد ٹیکسز عائد کرنے کے باوجود گردشی قرضوں میں خاطر خواہ کمی نہیں ہو رہی بلکہ سارا بوجھ صارفین پر ڈالا جا رہا ہے۔
ایک محکمہ قوم کے لئے عذاب بنا ہوا ہے، ایک تجویز یہ بھی دی جارہی ہے کہ جن علاقہ جات میں لائین لاسز زیادہ ہیں انھیں نجی شعبہ کے حوالہ کیا جائے المیہ ہے کہ سرکار کی جانب سے664 ارب کی سبسڈی دینے کے باوجود گھریلوصارفین کے یونٹ کی مالیت50 روپے ہونا کسی ظلم سے کم نہیں ہے، وہ مزودر طبقہ جس کی گزر بسر صرف دہاڑی پر ہے، وہ اتنی مہنگی بجلی کیسے افورڈ کر سکے گا؟ محکمہ کے سابق ملازمین کا بل بھی اگر واپڈا ادا کرے تواس بجلی کی مالیت کا بوجھ تو ایک مزدور ہی کو اٹھانا ہے۔
راوی یہ بتانے سے قاصر ہے کہ کس سیاسی عہد میں بجلی کے مہنگے پلاٹ لگانے کی "حماقت" کا فیصلہ کیا گیا، انڈیپنڈنٹ پاورپروڈیوسر IPPs پالیسی کے تحت یہ پراجیکٹ لگانا کس کی مجبوری تھی، آئل مافیا نے اس سے کتنا فائدہ اٹھایا، حد تو یہ ہے کہ واپڈا کے زیادہ تر دفاتر کرائے کی کوٹھیوں میں تا حال قائم ہیں جس سے شعبہ کا ایک مخصوص طبقہ انڈر ہینڈ ڈیل سے مستفید ہو رہا ہے۔ Capacity payment کا جن اب بے قابو ہوگیا ہے، اخباری اطلاعات ہیں کہ ایک سال میں بجلی خریدے بغیر1929 ارب کی ادائیگی سرکار کی طرف سے کی گئی ہے، تاجر برادری بھی اس ظلم کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔
جماعت اسلامی کی طرف سے 26 جولائی کو مہنگی بجلی غیر ضروری ٹیکسز اور آئی پی پی کو ادائیگیوں اور اشرافیہ کو مفت بجلی دینے اور لوڈ شیڈنگ کے خلاف ڈی چوک دھرنا دینے جارہی ہے۔
ماحولیات کی تبدیلی کے اثرات کا جائزہ مستقبل کے تناظر میں افسر شاہی ٹھنڈے کمروں سے باہر نکل کر لیتی تو اس محکمہ کا چہرہ اتنا داغ دار نہ ہوتا، لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے یہ قوم آزاد ہوتی، گرم ترین موسم میں سستی ترین بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا مگر اس کے لئے 60 کی دہائی کا جذبہ درکار تھا، کیا کہیے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی شرائط نے متحدہ شعبہ کو 16 حصوں میں منقسم کر دیا ہے۔
سرکار اور واپڈا کی ناقص پالیسی کا ہی فیض ہے کہ ایک طرف محکمہ کے ملازمین کے ذاتی اثاثہ جات میں ہوشر با اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف بیچارے عوام بھاری بھر کم بلوں کے بوجھ تلے قریب المرگ ہیں۔