Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Jhangir Shah Kakar/
  4. Budget 2020-2021

Budget 2020-2021

بجٹ 2020-2120

ہم یہ بھی مان لیں گے کہ کورونا نے دنیا کی معیشت کاتیاپانچاکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مالی سال کا بجٹ ایسے وقت میں پیش کیا جب ملک کی معاشی سرگرمیاں حالت جمود میں اور تمام کاروبار زندگی عالمی وباکے باعث بری طرح متاثر ہوئے۔ تو ایسی صورتحال میں عالمی ممالک اور قریبی ہمسایہ ممالک کی طرف سے ملنے والی رقوم بجٹ کی کتاب سے نہ صرف غائب بلکہ نظروں سے بھی اوجھل ہوجائیں گے۔

چند امداد اور عوام سے ملنے والی رقوم چند یہاں ملاحظہ کیجئے۔

آئی ایم ایف کی طرف سے مالی معاونت 1.4b$ کے علاوہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو کوروناپر قابو پانے کے لئے متاثرہ عوام کی مدد، صحت کی سہولتوں کو توسیع اور روزگار کے مواقع بڑھانے میں آسان سود پر 50 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری دی، اتنی بڑی رقم بجٹ میں کن سیکٹرز کے لئے مختص کی؟ صحت کی خستہ حالی اور فرنٹ لائنز پر لڑنے والوں کی تعداد کورونا کی مد میں عام لوگوں سے زیادہ ہیں جو ہماری قیادت کے لئے شرمناک اورذلت کی بات ہے۔

80 کروڑ ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی موخر ہونے کا جو امکان تھی، اس سے بھی G20 ممالک کی منظوری دینے کے بعد چھٹکارا ملا یعنی اس مرتبہ قرض کی ادائیگیوں کی سہولت سے گیٹوں Gates کو مزید سیاہ Black رنگ کروایئں گے تاکہ اندر آرام و سکون اور عیش وعشرت سے رہنے والے نظر نہ آئیں اور 1404 ارب سے خوب انجوائی کریں۔

عالمی مارکیٹ سے سستے قیمت پر ملنے والے پیٹرول وڈیزل سے وطن پاکستان میں منافع کی رقوم بجٹ میں کن سیکٹرز کے لئے مختص کی؟

کورونا کے ان کھٹن حالات میں ہر گورنمنٹ کی تنخواہوں سے کٹوائی گئی رقم کہاں غائب؟

ان رقوم کودوسرے محکموں کے لئے مختص ہونے کے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ یہ رقم کورونا کے خلاف جنگ میں استعمال ہونے کے لئے تھی نہ کہ انڈیا کے خلاف۔

تحریک بے انصافیوں کی یہ غیر منطقی انداز آپ کو بھی ملے گا کہ اس حکومت نے بیرونی قرضوں کی زیادہ ادائیگی کی، جو سراسر لایعنی بات ہے۔

پاکستانی قرضوں کی ادائیگیاں جون 2018 میں %81 تھی، جون 2019 میں بڑھ کر %159 ہوگئی۔

حوالہ = > 27 اپریل کی جنگ اخبار میں پاکستان کے ممتاز ماہر معیشت ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ کاکالم

"آئی ایم ایف اوربروقت امداد "پڑھیں

یہ ایک مسلم الثبوت کہ اس ملک میں معاشی لحاظ سے عوام کے لئے زندگی زندان سے کم نہیں، عام نچلے طبقے سے تعلق رکھنےوالوں کی حالت نہ صرف یاس کے عالم میں بلکہ حال شکستہ جیسے بنائی گئی ہیں۔ معاشی غلامی اور فقیری اس ملک میں محیر العقل ہیں کیونکہ یہاں پر ادویات اور قلم سے زیادہ گولیوں اور بندوقوں کی زیادہ اہمیت ہیں اور جس ملک میں بندوق کی اہمیت ہو وہاں پر پرامن مائنڈ سیٹ نہیں بلکہ وحشیت زدہ پیداہوگی۔

Check Also

Angrezi Kese Seekhen?

By Mubashir Ali Zaidi