Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Jhukna Barai Hai

Jhukna Barai Hai

جھکنا بڑائی ہے

ایک صاحب نے اپنا واقعہ لکھا کہ وہ ایک نیم صحرائی علاقے میں گئے، وہ تانگہ پر سفر کر رہے تھے کہ اتنے میں آندھی کے آثار ظاہر ہوئے تو تانگہ والے نے اپنا تانگہ روک دیا اس نے بتایا کہ اس علاقے میں بڑی ہولناک قسم کی آندھی آتی ہے، وہ اتنی تیز ہوتی ہے کہ بڑی بڑی چیزوں کو اڑا کر لیجاتی ہے اور آثار بتا رہے ہیں کہ اسوقت اسی قسم کی آندھی آرہی ہے، اسلئے آپ تانگہ سے اتر کر اپنے بچاؤ کی تدبیر کریں۔

آندھی قریب آگئی تو ہم ایک درخت کی طرف بڑھے تاکہ ہم اسکی آڑ میں پناہ لے سکیں، تانگہ والے نے ہمیں درخت کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تو چیخ پڑا اور اس نے کہا آپ درخت کے نیچے ہر گز نہ جائیے اس آندھی میں بڑے بڑے درخت گر جاتے ہیں، اسلئے اس موقع پر درخت کی پناہ لینا بہت خطرناک ہے پھر اس نے کہا اس آندھی کے مقابلے میں بچاؤ کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کھلی زمین پر اوندھے ہو کر لیٹ جایں۔ ہم نے تانگہ والے کے کہنے پر عمل کیا اور زمین پر منہ نیچے کرکے لیٹ گئے آندھی آئی اور بہت زور کے ساتھ آئی وہ بہت سے درختوں اور ٹیلوں تک کو اڑا کر لے گئی، لیکن یہ سارا طوفان ہمارے اوپر سے گزرتا رہا اور زمین کی سطح پر ہم محفوظ پڑے رہے۔

کچھ دیر کے بعد جب آندھی کا زور ختم ہو تو ہم اٹھ گئے ہم نے محسوس کیا کہ تانگہ والے کی بات بلکل درست تھی آندھیاں اٹھتی ہیں تو ان کا زور ہمیشہ اوپر اوپر رہتا ہے زمین کے نیچے کی سطح اسکی براہ راست زد سے محفوظ رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آندھی میں کھڑے ہوئے درخت تو اکھڑ جاتے ہیں مگر زمین پر پھیلی ہوئی گھاس بدستور قائم رہتی ہے ایسی حالت میں آندھی سے بچاؤ کی سب سے زیادہ کامیاب تدبیر یہ ہے کہ وقتی طور پر اپنے آپ کو نیچا کر لیا جائے کیونکہ جھکنا زندگی ہے اور اکڑ موت کی علامت ہے۔

یہ قدرت کا سبق ہے جو بتاتا ہے کہ زندگی کے طوفانوں سے بچنے کا طریقہ کیا ہے اس کا سادہ طریقہ یہ ہے کہ جب آندھی اٹھے تو وقتی طور پر اپنا جھنڈا نیچا کرلو کوئی شخص اشتعال انگیز بات کہے تو تم اسکی طرف سے اپنے کان بند کرلو کوئی تمہاری دیوار پر کیچڑ پھینک دے تو اسکے اوپر پانی بہا کر اسے صاف کردو اور کسی کے غصہ دلانے پر غصے میں نہ آو بلکہ کوئی تمہارے خلاف نعرے بازی کرے توتم اسکےلئے دعا کرنے میں مصروف ہو جاو۔ اپنی اناوں کے خول میں بند ہونے سے آپ کے رشتے کمزور ہو جاتے ہیں جھک جانا ہی محبت اور کامیابی ہے۔

روزمرہ زندگی میں جھک جانا بہادری اور دانشمندی کی بات ہے معاف کر دینا اور درگزر دراصل جھک جانے کی ہی عملی شکل ہوتی ہے۔ جھک جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ غلط ہیں یا آپ کا موقف غلط ہے یا آپ بزدل ہیں بلکہ جھک جانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ جھگڑے اور تصادم سے بچنا چاہتے ہیں، رشتوں کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی اناء ضد کےغلام نہیں ہیں۔ اپنا گھر ہو، خاندان ہو، کنبہ ہو یا پھر ملک ہو ان سب کی بقاء اور بہتری کے لیے تھوڑا جھک جانا کسی کی عزت وتوقیر میں کمی نہیں کرتا بلکہ اس کے وقار اور عزت میں اضافے کا باعث بن جاتا ہے۔

آج ہمارا ملک ایک ایسے ہی سیاسی، آئینی اور قانونی دوراہے پر کھڑا ہے جہاں سے ایک راستہ ضد، اناء جھگڑے، نفرت، مزاحمت اور تباہی کی جانب اور دوسرا راستہ امن، باہمی مفاہمت اور محبت اور جھکنے کی جانب جاتا ہے۔ اس دوراہے پر خوبصورت امن اور سلامتی کا راستہ ہی قابل قبول نظر آتا ہے۔

پاکستانی جمہوریت کیلیے مفاہمت اور تعاون کی سیاست ہمیشہ ایک خواب رہی ہے یہ سیاستدان اپنے اپنے مشترکہ مفادات کے باعث ایک دوسرے کے سامنے جھک بھی سکتے ہیں اور متحد ہو کر ایک پلیٹ فارم پر جمع بھی ہو سکتے ہیں معاہدے اور میثاق بھی کر سکتے ہیں۔ تو کیا آج یہ ملک و قوم کی فلاح کے لیے اپنی ضدوں اور اناوُں کے خول سے باہر نہیں آسکتے۔

ہمارے ملک کی سیاست اس وقت شدید تصادم کی طرف بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اختیارات اور اقتدار کی سیاسی، آئینی و قانونی جنگ جاری ہے ایک دوسرے کو راستے سے ہٹانے کے بیان سنائی دیتے ہیں ایک دوسرے کی ذاتی زندگیوں پر گند اُچھالا جارہا ہے اور اب تو بات گالی گلوچ تک جا پہنچی ہے اپنی اس جنگ میں عوام کے مختلف طبقات کو بھی گھسیٹا جارہا ہےاور نوبت اداروں سے ٹکراوُ تک جا پہنچی ہے۔

ایک جانب جلسے، جلوس، ریلیاں، نعرے اور دھرنے ہیں تو دوسری جانب کنٹینر، پولیس، آنسو گیس، لاٹھی چارج، مقدمے اور گرفتاریاں ہیں دونوں جانب پاکستانی عوام ہیں لیکن ہمارے کسی ایوان میں بھی غریب عوام اور ملک کی تیزی سے ڈوبتی معیشت کی بات نہیں کی جاتی! کوئی بھی بے روزگاری، مہنگائی سے نجات کا راستہ نہیں دکھاتا ہے۔ کاش کوئی ان سے یہ پوچھے کہ تمہاری اس جھوٹی اناء اور ضد کی جنگ میں پسنے والے عوام کا کیا قصور ہے؟ انہیں کس بات کی سزا دی جارہی ہے؟ عدم برداشت اور تصادم کے اس رویے سے وہ دن بدن اس پر جمہوریت اور سیاست سے بیزار ہوتے جارہے ہیں۔

دنیا بھر میں ہمارا اور ہمارے ملک اور ہماری جمہوریت کامذاق اڑایا جارہا ہے دشمن ہنس رہے ہیں اور دوست پریشان ہیں۔ ان سیاسی تلخیوں کے ماحول میں عام آدمی کا دم گھٹ رہا ہے آپس کی سیاسی مخالفت دشمنی میں ڈھل چکی ہے ہمارا پورا سیاسی ڈھانچہ اس بند گلی اور اندھیری سرنگ میں داخل ہو چکا ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ بظاہر نظر نہیں آتا ان حالات میں بڑھتی ہوئی مایوسی اور بے زاری لوگوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرہی ہے۔

جب اپنے ہی ملک چھوڑ رہے ہوں تو باہر سے کون آے گا؟ اس طرح کے بحران صرف مذاکرات سے حل ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس میں پہلے کون آگے بڑھے؟ یہ وقت ہے جھکنے کا ہے مگر کون جھک کر اپنی بڑائی کا ثبوت دے؟ کون اپنی مونچھ ذرا سی نیچی کرے؟ کون اپنی ضد اور اناء کے حصار سے باہر نکلے؟ کون اپنی عوام اور ملک کے لیے اپنی ذات اور مفادات کی قربانی سے آغاز کرکے اس ڈیڈ لاک کا خاتمہ کرے گا؟ کسی نہ کسی کو تو آگے بڑھنا ہوگا کوئی نہ کوئی تو یہ بیڑہ اُٹھاے گا؟

یہ وقت اپنے ملک وقوم کو اس بحران سے نکالنے اور اس اذیت سے بچانے کا وقت ہے حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ اگر کوئی بھی ملک وعوام دوستی کے ناطے جھکتا ہے تو اس کا قد بڑھے گا لوگوں کے دلوں میں بھی اس کا احترام پیدا ہوگا۔ غیر مشروط مذاکرات ہی اس کا واحد حل ہیں میرے خیال میں حکومت وقت اور صاحب اقتدار لوگوں کو مثبت سوچ اور نیک نیتی رکھتے ہوے اس نیک کام میں پہل کرنی چاہیے امن کی جانب غیر مشروط طور پر پہلا قدم اُٹھانا ہوگا یہ ذمہ داری ان کی ہے اور انہیں ہی یہ بڑا پن دکھانا ہوگا اور اپوزیشن کو بھی اپنی حب الوطنی کا ثبوت دے کر کھلے دل سے اسی طرح تعاون کا ہاتھ بڑھانا ہوگا۔

دنیا میں کوئی بحران ایسا نہیں ہوتا جو مذاکرات سے حل نہ ہو سکے۔ آپس کی جنگ اور نفرتیں کبھی کسی مسلے کا حل نہیں ہوتی۔ مسلے مل بیٹھنے سے ہی سلجھ سکتے ہیں لڑنے سے تو نفرتیں بڑھتی ہیں۔ ہمیں اپنا نہیں پاکستان کا سوچنا ہے۔ یہ وقت گزر جاے گا لیکن یاد رہے تاریخ ایک آئینہ ہے اور وہی دکھاتا ہے جو ہم کرتے ہیں یا جو ہوتا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں میں ہر ہر چیز محفوظ ہوتی چلی جاتی ہے۔ آج ہمارا کردار پوری قوم دیکھ رہی ہے کل ہماری تاریخ ہمارے ہمارے ہر مثبت اور منفی عمل کو محفوظ رکھے گی۔ اچھائی اور بھلائی ہمیشہ تاریخ میں ہمیں زندہ رکھتی ہے۔ یاد رہے کہ تاریخ کی آنکھ ہمیں دیکھ رہی ہے!

بھلا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل وگلزار ہوتا ہے

Check Also

2017 Ki Ikhtetami Tehreer

By Mojahid Mirza