Sazish Ya Tabbeer?
سازش یا تدبیر؟
سماجی نفسیات کے ایک اور پہلو کے تجزیے کے ساتھ حاضر ہوں۔ جس میں ہم دیکھیں گے کس طرح الفاظ کا چناؤ ہمارے اجتماعی رویوں کی عکاسی کرتا ہے اور یہ رویے نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ پورے عالمِ اسلام سے متعلقہ ہیں۔
کورونا وائرس سے متعلق آج کل بہت سے قسم کے نظریات گردش کر رہے ہیں، کہ کیسے پھیلا، کہاں سے آیا، کس کو اس کا فائدہ ہوا، کس کو نقصان ہوا، قدرتی آفت ہے یا انسان کا ہی بنایا ہوا۔ چائنا نے بنایا یا امریکہ نے، اعداد و شمار درست ہیں یا نہیں، ویکسین کون بنا رہا ہے، کون نفع کمائے گا اور کون نہیں۔ وغیرہ وغیرہ
بہر حال یہ میرا موضوع نہیں ہے کہ کون سا نظریہ صحیح ہے اور کون سا نہیں!! بلکہ مرا موضوع اس سے جڑے رویے ہیں۔ جیسے پہلے تویہ کہا گیا یہ چائنا والوں کے اعمال کی سزا ہے، پھر ایران پہنچا تو کہا کہ صرف کافروں کو لگتا یے، مسلمانوں کو لگ ہی نہیں سکتا، اور پھر زائرین اور تبلیغیوں کی بحث۔۔۔۔ !!
تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے۔ کہ جب بھی کوئی ایسی بات ہوتی ہے جو ہماری امیدوں یا ہمارے مزاج (اجتماعی) کے خلاف ہو تو ہم اسے دوسروں کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا۔ کہ یہ ہماری غلطی تھی، ہماری کوتاہی تھی، ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ نہیں، بالکل بھی نہیں !!حکمران اور عوام دونوں اس میں برابر کے شریک ہیں۔
آج مسلمان چاہے کتنی ہی ذلت کی زندگی گزار رہے ہوں، جتنا ایک دوسرے سے لڑ رہے ہوں ہم کبھی نہیں مانیں گے کہ یہ ہماری اپنی کمزوری ہے۔ بلکہ کہتے ہیں یہ یہود کی سازش ہے، یہ ہنود کی سازش ہے، یہ عیسائیوں کی سازش ہے!
اب یہاں ایک تو لفظ "سازش" قابلِ غور ہے اور دوسرا ہمارا اجتماعی رویہ۔ یہ ایک منفی لفظ ہے اور اپنے اثر کے طور پر منفی سوچ کو ہی جنم دیتا ہے۔ گویا ہم یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہم یا تو بے بس و لاچار ہیں اور دوسروں کے مکمل رحم و کرم پر ہیں نہ ہمارا کوئی شعور ہے، نہ اختیار نہ طاقت۔ کہ جو کچھ بھی ہمارے ساتھ ہوتا ہے وہ دوسروں کی وجہ سے ہوتا ہے اور ہم چونکہ اس کا سبب ہی نہیں ہیں تو کیوں کر ہم اس کو ٹھیک کر سکتے ہیں۔ بس سوشل میڈیا پہ بیٹھ کر لعن طعن کریں گے، یا پُتلے جلائیں گے، یا لعنت بھیج کر شئیر کرنے کا مسیج چلائیں گے وہ بھی انھیں کے بنائے ہوئے آلات اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے جن پہ لعن طعن کر رہے ہیں۔
اور المیہ یہ ہے۔ کہ اس میں بھی ہم دنیاوی فائدہ اپنا پہلے دیکھتے ہیں، آپ کو سازشی تھیوریز پہ مبنی بے شمار مواد فیس بک اور یوٹیوب پہ مل جائے گا، ایلومیناتی، دجال، شیطان، نیو ورلڈ آرڈر اور اس قسم کے اور بہت سے تصورات سے بھرپور!! یہ کام بھی ہم نہ تو لوگوں کو شعور دینے کے لیے کرتے ہیں اور نہ امت کی خدمت کے لیے بلکہ کلکس اور ایڈز کے چکر میں پیسوں کے لیے!! تو اس چیز نے تمام مسلمانوں کو بالعموم اور نوجوانوں کو بالخصوص بے یقین اور بے عمل بنا دیا ہے۔
جی تو لفظ "سازش" کے استعمال پر آتے ہیں، اس سے ایک تو یہ سامنے آیا کہ ہم نے بے بس و لاچار ظاہر کردیا اور دوسرا پہلو یہ ہھی ہے۔ کہ جب ہم کہتے ہیں "اسلام کے خلاف سازش" تو گویا ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اسلام خدا نخواستہ کوئی مقدس گائے ہے، یا بے جان چیز ہے مگر مقدس ہے۔ تو اس کے خلاف جو بھی کچھ کہے گا وہ سازش ہی ہوگی یا پھر گستاخی۔
اور جب ہم نے اس طرح کا تصور اپنا لیا تو ہم نے مان لیا۔ کہ ہمارا بطور انسان، بطور مسلمان کوئی کردار نہیں ہے اسلام میں، نہ دفاع میں، نہ اشاعت میں، نہ سمجھنے میں کہ وہ تو خدا نخواستہ بس ایک بت کی مانند ہے جس کو ماننا تو ہے، مگر اپنانا نہیں ہے۔
آئیے! اب دیکھیں کہ اگر ہم اس کے متبادل لفظ "تدبیر" استعمال کریں تو کیا صورتِ حال ہو گی۔ تدبیر ایک مثبت لفظ ہے اور اپنے اندر مثبت سوچ پیدا کرنے کی طاقت لیے ہوئے ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ تدبیر کم از کم اپنے برابر والے کے مقابلے میں کی جاتی ہے۔ اپنے سے کم تر کے خلاف تدبیر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ تو کم از کم اس سے یہ سمجھ آجاتی ہے کہ اگر کسی نے ہمارے خلاف تدبیر کی ہے تو مطلب یہ کہ وہ طاقت ور دشمن ہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہے۔ کہ اس کا مقابلہ بھی طاقت ور حریف سے ہے۔ تو گویا جب ہم اس لفظ کا استعمال کریں گے تو اس پوزیشن میں آ جائیں گے۔ کہ برابری میں جواب میں ہم بھی تدبیر کر سکیں گے نہ کہ صرف لعن طعن!! اور دوسرا یہ کہ خود کو عزت دے کر، اپنی طاقت کا احساس بھی کریں گے، احساس کمتری بھی ختم ہوگا، ذمہ داری کا احساس بھی ہو گا اور اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کا احساس بھی بیدار ہوگا۔
تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو فرعون نے تدبیر کی، بچے قتل کروائے مگر کامیاب نہ ہوا، بچہ اس کی گود میں پلا، نمرود نے تدبیر کی مگر آگ گلزار ہو گئی، بھائیوں نے تدبیر کی مگر یوسف بادشاہ بن گئے، یزید نے تدبیر کی مگر کربلا امر ہو گئی۔ اور بھی کتنی مثالیں !!
تو گویا تدبیر ایسے معاملات میں کی جاتی ہے یہاں اختیار کام نہ آئے، کامیابی یقینی نہ ہو، حریف طاقت ور ہو، تو اسلام اگر طاقت ہے تو اس کے خلاف تدابیر ہوں گی نہ کہ سازشیں !! اور تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ جہاں تدبیر باطل کی ہوگی وہیں ناکام ہو گی مگر شرط ہے یقین کی، اعتماد کی، عزتِ نفس کی، عمل کی!!
تو گزارش یہ ہے۔ کہ اس عادتِ نفسانی کو، اجتماعی رویے کو تبدیل کریں، خود کو عزت دیں، اپنی طاقت کا احساس کریں یقین اور عمل کے ساتھ اپنے دین کو اپنائیں ! اپنی خوبیوں خامیوں کو قبول کریں۔ اور متحد ہو کر دشمن کی تدبیر کے جواب میں تدبیر کریں۔
اور ہاں، رہی بات وبا کی تو ہو سکتا ہے یہ بھی کسی کی تدبیر ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نہ ہو۔ مگر ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہے، کیوں کہ وہ ہی بہترین تدبیر کرنے والا ہے!!
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین