Tarbela Aur Soan
تربیلا اور سواں

صاحب لوگوں کو معاملات کی سمجھ نہ ہو، فیصلے میرٹ کی بجائے کچھ اور دیکھ کر کئے جائیں، درباری ماہرین قصیدے لکھ کر ترقیاں پائیں تو ظاہر ہے راوی چین ہی چین لکھے گا لیکن ملک ڈوبتا جائے گا۔ پچھلے برس تربیلا کی گولڈن جوبلی دھوم دھام سے منائی گئی۔ 50 روپے کا ڈاک ٹکٹ بھی جاری ہوا تربیلا کے افتتاح پر ایسا ٹکٹ ہوتا تو بمشکل پندرہ بیس پیسے کا ہوتا۔ تھوڑی عقل ہو تو بیس پیسے سے پچاس روپے میں ساری کہانی سمجھ آ سکتی ہے لیکن نہ آئے تو سن لیں، سویں سالگرہ کا ٹکٹ شائد 10 ہزار روپے کا ہوگا۔
مقصد مایوسی پھیلانا ہرگز نہیں، تربیلا اپنے وقت کے حساب سے بہت کام کر چکا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا سود و زیاں سمجھ کر ضروری اقدامات لیے جائیں۔
سرکاری رپورٹوں میں تو تربیلا کے فضائل کے انبار مل ہی جائیں گے مگر سندھ کی سنیں تو تربیلا ڈیم ایک ڈراونا خواب لگتا ہے۔ ماحولیاتی تباہی، پانی کی کمی، لمبا انتظار، پھر سیلاب کی تباہی۔ سندھی ماہرین اپنے سٹائل سے شور مچاتے رہتے ہیں لیکن عملی تجاویز کا قحط ہے۔ کوئی ڈھنگ کی تجویز آبھی جائے تو کسی کو نہ سمجھ آتی ہے نہ یقین۔ ایسی ایک بڑی تجویز عرصہ 15 سال سے واپڈا کے کسی نالائق سیکشن آفیسر کی الماری میں بڑی دھول چاٹ رہی ہے۔
تجویز یوں ہے کہ تربیلا کی لائیو سٹوریج کپیسٹی پونے دس سے گھٹ کر ساڑھے پانچ ملین ایکڑ فٹ رہ گئی ہے جو کہ موثر کارکردگی کے لیے بہت کم ہے۔ کپیسٹی میں اس کمی کی وجہ 50 سال سے سیڈیمنٹ کا رکنا ہے۔ اسے نکالنے کے لیے سٹڈی بھی ہوئی جس میں یہ کہا گیا کہ بہت مہنگا کام ہے اتنے پیسے کسی اور ڈیم پر لگا لیں۔ ایسا کہہ کر بری ہو جانا بہت بڑی حماقت تھی کیونکہ سلٹ آزاد کرنے سے تربیلہ کی کپیسٹی تو دوبارہ بڑھ ہی جاتی لیکن اس کے نکلنے سے جنوبی پنجاب سندھ اور ڈیلٹا کو جو فائدہ ہوتا وہ کسی کی عقل میں نہیں آیا۔ واپڈا تو اب بھی بھاشا ڈیم کے فوائد میں یہ گنوانا نہیں بھولتا کہ وہ اگلے سو سال کی سلٹ بھی روکے گا۔ اب اس پر کیا کہا جائے؟ تعلیم کی کمی یا عقل کی کمی؟ ویسے سٹڈی کا سکوپ اور طریقہ کار کافی غیر موثر تھا اور کسی کو سواں منصوبے کا علم نہ تھا شاید اسی لیے وہ داخل دفتر ہوگئی۔ اب ذرا دل تھام کر سنیے بہتر تجویز ہےکیا۔
تربیلا پر دریائے سندھ کو اس کے پرانے لیول اوررستے پر بہنے دیں۔ پورا سال نہیں بس اکتوبر سے مئی تک یعنی سال میں آٹھ نو مہینے۔ اس دوران پانی کا بہاؤ پچاس ہزار کیوسک سے نہیں بڑھتا۔ تربیلا کو خالی رکھ کر رائٹ بینک پر ایسی دو تین سرنگوں سے کام چل جائے گا جو کہ 1974 کے ریور بیڈ لیول پر ہوں تاکہ سلٹ اور پانی باآسانی نکلتا رہے۔ جون میں پانی بڑھنے تک تربیلا اپنے نئے اور بہتررول کے لیے تیار ہوگا۔ وہ رول یہ ہے کہ مون سون کے پے در پے سپیلز کو سنبھالنا اور پانی کا مسلسل سواں سٹوریج کی جانب موڑنا۔ جولائی سے ستمبر تک تربیلا چاہے آٹھ دس بار بھرے، سواں سٹوریج کی موجودگی میں اسے مسلسل خالی رکھا جا سکتا ہے تاکہ یہ پانی اگلے جون تک کام آ سکے۔
سواں لنک کینال انجینئرنگ کا ایک شاہکار ہوگی کیونکہ رفتار اور مقدار میں یہ غازی بروتھا کینال سے بھی بڑی ہے۔ (بڑی کینال کا بہانہ نہیں چلے گا، پرانے ڈیزائن میں تین اس سے بڑی متوازی غیر پختہ نہریں تھیں) مجوزہ ڈیزائن میں لنک کینال کا لیول تربیلا کے سپل (572 میٹر) کی بجائے ڈیڈلیول پر رکھا گیا ہے تاکہ تربیلا کارول اور کنٹرول زیادہ موثر رہے اور سلٹ نکلنے کے ساتھ ساتھ تربیلا کی سیلابوں سے ٹکرانے کی صلاحیت مزید بڑھتی جائے۔ (کینال لیول کی حکمت بابوؤں کو سمجھ نہیں آتی تو کبھی جگ اور لوٹے کے فرق پر غور فرمالیں)۔
سواں سٹوریج کی ایلیویشن ایسی ہے کہ 40 ملین ایکڑ فٹ یعنی تربیلا سے سات گنا پانی بھی تربیلا کے ڈیڈ لیول سے قدرتی سلوپ استعمال کرکے یہاں سٹور کیا جا سکتا ہے۔ (اس ایک سطر میں پورا سواں ڈیزائن موجود ہے لیکن کچھ نالائقوں کو آج تک پلے نہیں پڑا) تربیلا سواں لنک کینال ایک پختہ چینل ہے تاکہ پانی کو برق رفتاری سے منتقل کیا جا سکے اس کے علاوہ اس روٹ سے بھی کافی سلٹ نکالی جا سکتی ہے کیونکہ راستے میں دریائے ہرو کی کراسنگ میں ایک دن کا سٹاپ بھی ہے، جو دوسال تک کی سلٹ جمع کرکے براستہ ہرو سندھ میں فلش کرسکتا ہے۔
سواں ڈیم برسات میں ہر دریا کے سیلاب کو بیلنس کر سکتا ہے کیونکہ تربیلا جولائی سے ستمبر تک دو سے تین لاکھ کیوسک پہ بہتا ہے۔ (کبھی کبھار پانچ دس پر چلا جائے تب بھی پرواہ نہیں بلکہ ایک ایک قطرہ بچے گا)۔ جبکہ باقی تمام دریاوں کے سیلاب عموماََ تربیلا کے عام فلو سے کم ہی رہتے ہیں اور گدو سے سب کا فاصلہ بھی برابر ہے۔ تو جونہی مرالہ، منگلا، وارسک، منڈا، جسر، گنڈاسنگھ، یا خود تربیلا پر بہاؤ بڑھے، اتنا اضافی پانی سواں کی جانب موڑ دیا جائے۔ اسطرح بڑے سے بڑا سیلاب باآسانی کاٹا اور سنبھالا جاسکتا ہے۔
سندھی ماہرین ایسی تجویز کو تحمل سے سمجھیں، کہ تربیلا ڈیم آٹھ نو مہینے کیلئے بالکل غائب ہو جائے اور صرف برسات میں سیلاب سنبھالنے کی بڑی اور اہم ترین ڈیوٹی دینے واپس آجائے تو اس میں سب سے بڑی جیت صرف سندھ کی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ گدو برسات میں دو ڈھائی لاکھ سے نیچے رہے اور پانی اور سلٹ سارا سال مسلسل گدو سےلیکر ڈیلٹا تک پہنچتی رہے۔ سندھ ڈیلٹا کا رقبہ سولہ لاکھ ایکڑ ہے۔ آدھی سلٹ بھی وہاں تک پہنچ جائے تو پورے ڈیلٹا میں پندرہ انچ موٹی زرخیز تہہ بنے گی جس سے ایک طرف تو سمندر کی چڑھائی پچاس سال پیچھے ہٹ جائے گی اور دوسری طرف تمر کے جنگل میں منگل ہوجائے گا۔
بھاشا ڈیم سے مستقل سلٹ گزارنے کیلئے باقاعدہ سرنگیں ہیں لیکن اسکے ڈیزائن اور آپریشن میں سلٹ گزارنے کو ترجیحی بنیادوں پر رکھا جائے اور ضروری تبدیلییوں پر ابھی غور کریں۔ مقصد یہ ہے کہ تربیلا خالی ہونے کے علاوہ سالانہ نئی بیس کروڑ ٹن سلٹ بھی مستقل چلتی رہے۔
سواں ہر برسات میں جو بیس سے چالیس ایکڑفٹ پانی اکٹھا کرے گا، وہی پانی اکتوبر سے جون تک تربیلا کے پانی سے پہلے سندھ پہنچ جائے گا۔ 36 ملین ایکڑ فٹ پانی سٹور ہو، تو اس سے مسلسل چھ مہینے تک اضافی ایک لاکھ کیوسک بہایا جا سکتا ہے (جو موجودہ ڈیمز کے بس کا کام نہیں)۔ ذیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ پانی ہمہ وقت آن ڈیمانڈ حاظر ہوگا اور مہینوں انتظار کی زحمت کبھی نہ ہوگی۔
بجلی کی پیداوار ایک اہم پہلو ہے لیکن پانی سے ذیادہ نہیں۔ نئے رول میں تربیلا کی اہمیت کم نہیں ہوتی، بلکہ یہ نیا رول آج کی نسبت بہت ذیادہ ماحول دوست اور ذمہ دارانہ ہو جائے گا اور سلٹ نکلنے کے بعد یہ بوڑھا رستم بھی پھر سے سہراب بن جائے گا۔
آج سندھ میں تربیلا کا خوف ہے کل لوگ اس کی بلائیں لیں گے۔ تلوار ڈاکو کے ہاتھ میں ہو تو ظلم کرتی ہے انصاف کی خاطر اٹھے تو ذوالفقار بن جاتی ہے۔
داسو اور بھاشا بننے سے سسٹم میں بجلی بڑھ جائے گی جس سے تربیلا کی بجلی میں کمی کا ازالہ ہو جائے گا لیکن جتنا پانی سواں کے راستے نکلے گا وہ تربیلا سے کافی زیادہ بجلی پیدا کرے گا اس سے بھی زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ اوپر کھر منگ شیوک کمپلیکس اور نیچے سواں سٹوریج ہو تو پوری انڈس کیسکیڈ کی پیداوار مفت میں تقریباََ دگنی ہو جائے گی اور صرف یہ اضافہ پاکستان کی موجودہ بجلی کھپت سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہوگا۔ اس لیے ترجیحات سیدھی رکھیں تو بجلی بے بہا بنے گی۔
سندھ طاس کے تناظر میں شیوک اور سواں سٹوریج کی ضرورت بہت بڑھ جاتی ہے۔ پتے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اسٹوریج موجود ہو تو انڈیا دریائے سندھ پر جتنی سٹوریج بنائے اس کا دس گنا زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا تفصیلات پھر کبھی سہی فی الوقت اتنا ہی کافی ہے تاکہ قوم تسلی رکھے۔
سواں ڈیم ہمیں خود بنانا چاھئے لیکن سیڈیمنٹ اور ڈیلٹا کے حوالے سے اسے کاربن کریڈٹ اور دوسرے ماحولیاتی فنڈز ملنا بہت آسان ہوگا۔ چین بھی اپنا یار ہے، اسے بتائیں یہ آخری بار ہے۔ ڈیم بن جائے تو دیکھنا ہم دنیا کو قرضے دیا کریں گے۔ ویسے سندھ طاس معاھدہ رہے تو تربیلا کی ڈی سلٹنگ کا بل انڈیا پر بھی ڈالا جاسکتا ہے۔
آخر میں سواں کی غیرقانونی ہاوسنگ سوسائیٹیوں کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ قدرت کی مداخلت سے فیصلہ تو چند گھنٹوں میں ہوچکا، سواں ڈیم ملک اور قوم کی ضرورت ہے اور یہ رقبہ 70 سال سے ڈیم کی امانت ہے۔ متعلقہ اداروں کا بھی قصور ہے کہ انہوں نے بلاضرورت معاملے کو لٹکایا۔ لیکن آپ ہی این او سی کا انتظار کرلیتے۔ بہرحال ہاوسنگ سوسائٹیز کو سواں جھیل کے واٹر فرنٹ پر بنائیں یا ڈاون سٹریم۔ اسکے علاوہ آبادی اور انفراسٹرکچر کی منتقلی کا کام بھی بہت ہے اسلئے حالات کو سمجھ کر ایسے فیصلے لیں جو ملک و قوم کے عظیم تر مفاد سے نہ ٹکرائیں۔
سیاستدان بھی قوم کے سگے ماں باپ بننا چاہیں تو اچھا موقع ہے۔ قوم کو آپ سے بڑی توقعات ہوتی ہیں لیکن آپکو گلیوں نالیوں میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ میدان بھی حاضر گھوڑا بھی حاضر۔

