Pani Ki Siasat
پانی کی سیاست

وزیراعلی پنجاب نے پانی کے معاملے پر سخت لہجہ اپنایا، جس کی وجوہات کا تو علم نہیں لیکن جوابا سندھ میں"تشویش" کی لہر دوڑ گئی ہے۔ سیاسی اور صحافتی کارندے حسب عادت عوام کو ڈرانے اور بھڑکانے میں لگ گئے ہیں۔ ان میں اکثر غیر مہذب دھمکیوں، طععنوں اور ذاتی حملوں پر انحصار کر رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس موضوعاتی مہارت اور دلائل کی شدید کمی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر اکثر ایسے قوم پرستوں سے پالا پڑتا رہتا ہے جو نام نسب چھپا کر گالی گلوچ کاپی پیسٹ کرتے رہتے ہیں، اسلئے سچ پوچھیں تو ہمارے لیے اس میں کچھ نیا نہیں۔ ان میں سے اکثر نے ناموں کے ساتھ ماہرانہ ڈگریاں بھی لگا رکھی ہیں لیکن کسی ٹیکنیکل سوال کا جواب دینا تو درکنار سوال کو سمجھ بھی نہیں سکتے۔ پانی کا مسئلہ اتنا مشکل نہیں جتنا جہالت، خودغرضی اور لاپرواہی کی وجہ سے بن گیاہے۔
دریائے سندھ میں سندھ طاس کا تقریباََ 65 فیصد پانی آتا ہے اور باقی 35 فیصد جہلم چناب راوی ستلج میں ملا کر بنتا ہے۔ پنجاب میں منگلا کے سوا سیلابی سرپلس سٹور کرنے کا کوئی بندوبست نہیں اسلئے پنجند کا دس سے بیس ملین ایکڑ فٹ پانی بھی صوبہ سندھ کو ملتا ہے، جسے کامیابی سے سمندر میں پھینک کر "ھل من مذید" کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔ رواں سال پنجند کا 19 اور کوٹری کا 33 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع ہوا، جسے ضائع کہنے پر ماحولیات کے نام نہاد ٹھیکیدار آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ یہ نو سال کا پانی چند ہفتوں میں غرق کرکے کس کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ جبکہ ڈیلٹا تو اگلے نو ماہ پھر خشک رہے گا۔
1991 کے معاہدے کے مطابق کالاباغ کا سالانہ پانی صوبہ سندھ کے حصے سے تقریباََ 50 فیصد زیادہ ہے جو معاھدے کے مطابق باقی صوبوں کا جائز حق ہے۔ سندھ میں قوم پرستی کے نام پر یہ دھوکہ بازی کی جاتی ہے کہ دریائے سندھ کے پانی کو ہاتھ لگایا تو ملک توڑ دیں گے، بندرگاہ بند کردیں گے، سرائیکستان بنادیں گے۔ کیوں بھائی؟ معاہدے پر اعتراض ہے تو رقبہ آبادی دوبارہ ناپ لیں لیکن باقی صوبوں کا جو حق بنتا ہے اسے ڈاکہ کہنا سراسر بیہودگی ہے۔ حالیہ برسوں میں اس دھوکے کو چھپانے کے لیے ڈیلٹا اور ماحولیات کے نام پر ایک احمقانہ اور خطرناک مہم چلائی جا رہی ہے تاکہ سمندر میں پانی کے مجرمانہ ضیاع کو بے شرمی سے حلال کیا جاسکے۔ سندھ کے جن گنے چنے دوستوں کو آبی معاملات کی سمجھ ہے وہ مصلحتا خاموش رہتے ہیں یا پھر لولے لنگڑے عذر گھڑنے میں مصروف رہتے ہیں تاکہ ان کی قوم پرستی اور مہارت پر سوال نہ اٹھے۔ کڑوا سچ یہی ہے کہ تربیلا کی سلٹ چلائےبغیر، چاہے قیامت تک پورے پاکستان کا پانی سمندر میں انڈیلتے رہیں نہ ڈیلٹا بچے گا نہ ماحولیات۔
پنجاب میں دریاؤں پر سیلاب سنبھالنے کے لیے سائٹس دستیاب ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن سب سے ضروری چیز تربیلا کے رول کی اصلاح ہے۔ سندھ میں بڑی مہارت سے ڈیم کے نام کو گالی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک غیرسنجیدہ آبی ماہر ماحولیاتی نعرے لگا کر ہر ڈیم، بیراج اور نہر ڈھانے کی تبلیغ کرتے ہیں جسے کوئی باہوش انسان سیریئس نہیں لے سکتا، البتہ کچھ نااھل یامشکوک حلقے ماحولیات کے نام پر اور اکثر سندھی قوم پرست صرف تعصب کے مارے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں (حالآنکہ خدانخواستہ ماہر صاحب کو موقع ملا تو سندھ کے بیراجز کو بھی نہیں بخشیں گے)۔ قوم پرستوں سے گزارش ہے کہ آپکی امانت سندھ کی دس ارب ٹن دھرتی تربیلا میں پھنسی ہے، اس سے وفا کریں اور وقت ضائع کیے بغیر اسے نکالنے کی فکر کریں۔ کچھ سڑیل بھائی اس کا الزام بھی پنجاب پر ڈال دیتے ہیں، لیکن برا کیا منانا۔ جس زمانے میں ڈیم بنا تھا، خود گورا صاحب کو بھی ماحولیات کا پتہ نہیں تھا۔
حکومت اور متعلقہ اداروں کی نیت ہو تو چاروں صوبوں کے آبی مسائل کا علاج بہت آسان ہے۔۔
تربیلا پر دریائے سندھ کو غیرسیلابی مہینوں میں ریور بیڈ لیول پر آزادانہ بہنے دیں۔ البتہ برسات میں اسے سٹریٹجک جنکشن کے طور پر استعمال کیا جائے تاکہ بیس سے چالیس ملین ایکڑفٹ پانی بچایا جاسکے۔
سٹوریج کا رول سواں اور شیوک، جبکہ بجلی کا کام انڈس کیسکیڈ کو سونپ دیا جائے۔ اس صورت میں بیٹھے بٹھائے 10 گنا سٹوریج، 10 گنا سستی ترین بجلی، 10 گنا فلڈ کنٹرول بمع ہارویسٹنگ اور انگنت ماحولیاتی فوائد حاصل ہوں گے۔ بجلی سوگنا سستی اور صوبوں کے حصے کا پانی پورا سال ہر جگہ ہر وقت دستیاب رہے گا۔
یاد آیا، ڈاکٹر حسن عباس فرماتے ہیں ہائیڈل یونٹ سولر سے سوگنا مہنگا بنتا ہے۔ یہ بات سراسر غلط بیانی ہے۔ ڈاکٹر صاحب، پلیز جوش خطابت میں اتنی خیانت نہ کریں۔
وزیر اعلی پنجاب کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ پانی کی تقسیم پر کوئی جھگڑا نہیں۔ بس صوبوں کے حصے کی بروقت دستیابی پر کام کرنے کی ضرورت ہے جس سے سیلاب اور ماحولیات، بلکہ انرجی، زراعت اور معیشت کے بڑے بڑے مسائل خود ہی حل ہو جائیں گے۔ وقت ضائع کیے بغیر سنجیدگی دکھائیں اور آبی ماہرین کو امپاور کریں تاکہ پلاننگ اور عملی اقدامات ہو سکیں۔ آپ صرف پنجاب کی ذمہ دار ہیں تو چچا جان سے رابطہ کریں۔ زبانی جمع خرچ سے تو کچھ فرق نہیں پڑے گا اور ملک و قوم کا نقصان اور بدحالی بڑھتی جائے گی۔

