Installed Capacity Aur Planet Factor
انسٹالڈ کپیسٹی اور پلانٹ فیکٹر

فرض کریں ایک سو میگاواٹ کا پاور پلانٹ پورا سال چوبیس گھنٹے چلتا رہے تو کہا جائیگا کہ وہ سوفیصد کپیسٹی پر چل رہا ہے۔ دن میں 24 گھنٹے ہیں اسلئے 2400 میگاواٹ آور بنے اور سال میں 876000 میگا واٹ آور(24 اور 365 سے ضرب دیں)۔
ہم جس یونٹ کو جانتے ہیں وہ کلو واٹ آور ہے، میگا گیگا کا چکر ختم کرنے کیلئے چھ صفر اڑا دیں تو 0.876 ارب یونٹ بنے۔ آسان حساب بس اتنا ہے کہ انسٹالڈ کپیسٹی کو پونے نو سے ضرب دیں تو یونٹس کا پتہ چل جاتا ہے۔
اب ذرا اس حساب کو غازی بروتھا پر آزماتے ہیں۔ غازی بروتھا کی انسٹالڈ کپیسٹی 1450 میگاواٹ ہے۔ پونے نو سے ضرب دیں تو 12.7 ارب یونٹ بنتے ہیں۔ لیکن اصل پیداوار صرف 6.6 ارب یونٹ ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ غازی بروتھا اوسطاََ 52 فیصد کپیسٹی پر چلتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سال کے آٹھ نو مہینے اتنا پانی نہیں ہوتا کہ اسکی پانچوں ٹربائنز چلتی رہیں۔
چلیں اب تربیلا کو دیکھتے ہیں۔ 3600 میگاواٹ کی کپیسٹی تھی تو 31.5 ارب یونٹ کی بجائے پندرہ ارب یونٹ بنتے تھے۔ کیونکہ غیر سیلابی مہینوں میں بمشکل ایک تہائی ٹربائنز کیلئے پانی دستیاب ہوتا ہے۔ پھر فورتھ ایکسٹنشن ہوئی تو انسٹالڈ کپیسٹی 4888 میگاواٹ ہوگئی لیکن 42.8 ارب یونٹ کی بجائے 17.4 ارب یونٹ بنے۔ ففتھ ایکسٹنشن کی تکمیل سے کپیسٹی 6418 میگاواٹ ہوجائے گی، لیکن پیداوار 56.2 ارب یونٹ میں سے صرف 18.7 ارب یونٹ یعنی ایفیشنسی 33 فیصد رہ گئی۔
حاصل بحث یہ ہے کہ ٹربائنز دگنی کرنے سے بجلی صرف پچیس فیصد بڑھی۔ ڈیم اور سرنگیں موجود تھیں اسلئے سودا بہت ذیادہ مہنگا نہیں لیکن تربیلا میں سلٹ کا مسئلہ حل کئے بغیر اتنی ٹربائنز لگاتے جانا دانشمندی نہیں، ویسے بھی سال میں نو ماہ بمشکل پندرہ فیصد ٹربائنز ہی چل پائیں گی، لیکن پرانی ٹربائنز جن کی سرنگوں کا دھانہ کافی نیچے ہے، ان میں ریت پہنچنے میں چند ہی سال باقی ہیں۔

