1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Istedad e Insani

Istedad e Insani

استعداد انسانی

گینیس ورلڈ ریکارڈ یا گینیس بک آف ورلڈ ریکارڈ سے تو تقریباً سبھی واقف ہیں۔ کسی بھی میدان میں بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ استعداد رکھنے والے انسان کا نام مع کام اس میں درج کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر دنیا کا تیز ترین انسان یوسین بولٹ ہے جس نے سو میٹر فاصلہ 9.58 سیکنڈز میں طے کرکے 2009 میں یہ ریکارڈ بنایا۔

اسی طرح دنیا کا سب سے لمبی چھلانگ لگانے والا انسان مائیک پاول ہے جس نے 1991 میں 8.95 میٹر لمبی چھلانگ لگا کریہ ریکارڈ اپنے نام کیا۔ اسی طرح وزن اٹھانے سے لیکر نیزہ پھینکنے، ایک منٹ میں زیادہ سے زیادہ اخروٹ توڑنے سے لیکر زیر آب سانس روکنے تک اور زیادہ کھانے سے لیکر دیر تک گانے تک ہزاروں میدانوں میں بنی آدم کی زیادہ سے زیادہ استطاعت ماپی جاتی اور سب سے زیادہ استطاعت کے حامل شخص کو سند سے نوازا جاتا ہے اور اسکا نام اپنے میدان کے سرخیل کے طور پر کتاب اور ویبسائٹ میں درج کر دیا جاتا ہے۔

اب اگر اسی استعداد کو دوسرے زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو یہ استطاعت بنی نوع انسان کی حد یا limitations کا تعین ہے۔ گویا رؤے زمین پر کوئی بھی انسان سو میٹر فاصلہ 9.58 سیکنڈز سے کم وقت میں طے نہیں کرسکتا۔ یا یہ کہ کائنات کا کوئی فرد بھی 104.8 میٹر سے زیادہ فاصلے تک نیزہ نہیں پھینک سکتا۔ یا کہ کوئی بنی آدم 100 میٹر تیراکی 46.9 سیکنڈز سے کم وقت میں نہیں کرسکتا۔ وعلی ھذالقیاس۔

اب سوچیں کہ اگر ہر ہر میدان میں حضرت انسان کی کارکردگی کی کوئی نہ کوئی حد ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ذہنی استعداد کی کوئی حد نہ ہو۔ یادداشت کے معاملہ میں دیکھیں تو کرہ ارض کا ایک بھی انسان ایسا نہیں ہوگا کہ جسے ایک سال قبل کے کسی ایک دن کی تمام کارگذاری مکمل جزیات کے ساتھ یاد ہو۔ بلکہ چھ ماہ قبل کی بھی نہیں یا شاید تین ماہ قبل کی بھی نہیں۔ بالکل ایسے ہی چیزوں کو سمجھنے میں بھی انسانی ذہن کی حد ہوگی۔

تو پھر اگر خالقِ کائنات کی تخلیق یا ابتداء انسانی ذہن اور سمجھ کے احاطہ میں نہیں آرہی اور صدیوں بلکہ ہزاروں لاکھوں سال سے نہیں آرہی تو پھر کیوں نہ اسے باقاعدہ انسانی ذہن کی حد یا limitation تسلیم کر لیا جائے۔ بجائے اس کے کہ سرے سے وجود خلاق عظیم کا ہی انکار کر دیا جائے۔ میرے خیال میں ہمیں اب یہ مان لینا چاہیے کہ انسانی ذہن کی استطاعت بس اتنی ہے کہ وہ مخلوق اور تخلیقات کی ابتداء اور معرض وجود میں آنے کے عمل کو سمجھ سکتا ہے خالق کے نہیں۔

یہ بالکل ایسے ہی جیسے ایک دس عددی کیلکولیٹر پر اگر بارہ عدد کا سوال حل کرنے کوشش کی جائے تو جواب ہر بار E ہی آتا ہے۔ چاہے کوئی یہ عمل ہزاروں بار کرے یا ہزاروں سال کرے۔ اور پھر اسی طرح تونوع انسانی کی ایمان بالغیب کی پرکھ مکمل ہوگی ورنہ تو سب عیاں ہوجاتا۔

Check Also

Pakistani Muashray Ke Nikamme Mard

By Khadija Bari