Digital Islam
ڈیجیٹل اسلام
ساٹھ کی دہائی کے وسط سے ستر کی دہائی کے اواخر تک عالمِ موجود میں آنے والی ہماری نسل کئی لحاظ منفرد ہے۔ اس کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ معلوم انسانی تاریخ میں سب سے برق رفتار سائینسی ترقی اور تبدیلیوں کا مشاہدہ ہم نے کیا ہے۔ اگر ذرائع مواصلات کی بات کریں تو خط اور تار(telegraph) سے لیکرایس ایم ایس، ای میل اورواٹس ایپ وغیرہ تک، اسی طرح اینالاگ ٹیلی فون سے جدید موبائل فون اور ویڈیو کال تک۔ اسی طرح اگر ذرائع آمدورفت کی بات کریں تو بھاپ سے چلنے والی ریل گاڑی سے بلٹ ٹرین تک، سیبر سے جے ایف 17، اور سیسنا سے ائیربس اے 380 تک۔ کمپیوٹیشن میں لاگرتھم ٹیبل سے کیلکولیٹر اور پھر سپر کمپیوٹر تک کا سفر کیا ہے۔
ترقی کے اس سفر میں ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ کمپیوٹر اور موبائل فون ہر تیسرے ماہ نئے کام کیلئے آؤٹ آو لمٹ ہوئے جاتے ہیں۔ کبھی سسٹم اپگریڈ تو میموری بڑھانا پڑھتی ہے۔ پھر بھی کسی نئے سافٹ ویر یا کام کیلئے نیا جدید کمپیوٹر درکار ہوتا ہے۔ پرانا کام نہیں کرتا مگر دوسری طرف ترقی کے اس سارے سفر میں سیکھنا تو ہر بار پڑا مگر ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے کہا ہو آپ کا دماغ چھوٹا ہے یہ کام اس سے نہ ہوپائے گا۔ اور شاید آئندہ دس بیس پچاس سال یا ہزار سال تک بھی ایسا نہ کہنا پڑے کیونکہ پچھلے ہزاروں سال کی تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ کبھی بھی کسی بھی نئی ایجاد کو بنانے، سمجھنے یا چلانے کیلئے انسانی دماغ کی استطاعت ہمیشہ ہی کافی ہوتی ہے۔
اسی طرح باقی جسم کی بات ہے۔ گھوڑا سواری کیلئے موزوں جسم بلٹ ٹرین سے بھی اسی سہولت سے استفادہ کرلیتا ہے، اور غلیل چلانے والا راکٹ لانچر بھی بآسانی چلالیتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انسان کو بازو لمبے کروانے کی حاجت محسوس ہوئی ہو یا ٹانگیں موٹی کروانا پڑی ہوں۔
بات صرف انسانی جسم تک ہی محدود نہیں پوری کائنات ہی ایسی ہے کہ اس کے باسیوں ہر ضرورت کا جواب اس کے پاس پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ حضرت انسان سمندروں میں تیل بہہ جانے سے پریشان تھا معلوم ہوا کہ ایسی مخلوقات موجود ہیں جو تیل پر پنپتی ہیں۔ دہائیوں پلاسٹک کیلئے فکرمندی رہی، اب سائنسدانوں نے جانا کہ دھرتی پر ایسے بیکٹیریاز تو پہلے سے موجود ہیں اور جانے کتنے کروڑ سال سے جو بآسانی پلاسٹک ہضم کرلیتے ہیں۔ اب ان کی افزائش پر کام ہورہا ہے۔
غرض جس جس زاویہ سے اس کائنات کو اس کے نظام کو دیکھیں کوئی عیب کوئی کجی کوئی کمی کہیں نہیں ملتی، ایسا کامل اور زبردست نظام کہ لاکھوں اقسام کے اربوں جاندار کروڑوں سال سے اپنے نظام حیات کے مطابق پیدا ہوتے، عمر بسر کرتے اور مرتے آرہے ہیں نہ کسی کے آنے سے اس پر فرق پڑتا ہے نہ کسی کے جانے سے۔ ایسا کیوں ہے؟
اس لیے کہ خالق کائنات انتہائی مکمل ہے اور اس نے یہ نظام بھی انتہائی مکمل بنایا ہے۔ مگر کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ اس قدر زبردست خلاق العظیم اور بدیع العلی نے باقی سب کچھ تو یقیناً بے عیب بنایا ہے مگر۔ خاکم بدہن۔ مذہب کی تخلیق کے معاملہ میں کہیں کوئی گڑ بڑ ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ ہزاروں سال قبل مذہب کا نصاب تخلیق کرتے وقت جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ وہ بات بات پر واویلا کرتے ہیں اس کے بیشتر احکامات پرانے اور دقیانوسی ہیں۔ جدید سائنسی دور کے مطابق اس میں کچھ جدت ہونا چاہیے تھی۔
یہ کیا کہ مردو زن کا اختلاط بے مہار اکیسویں صدی میں بھی ممنوع ہو۔ ٹراوزر، سکرٹ، اور مصافحہ میں بھلا کیا خرابی ہوسکتی ہے؟ حرام حلال کی توضیح بھی صدیوں پرانی، اس قدر تیز رفتا زندگی میں کون رزق حلال کیلئے تردد کرتا پھرے۔ اور تو اور عبادات کا بھی وہی فرسودہ نظام۔ بھئی کسی ایپ کے ذریعے ہی نماز کی اجازت ہونا چاہیے۔ کون وضو کرے اور کون مصلے پر کھڑا ہو۔
لو جی بھلا موسیقی اور ہلکے پھلکے رقص میں کیا برائی ہے۔۔ اور یہ کیا کہ کسی بت کے آگے ذرا سا جھک گئے تو اسلام خطرے میں۔ کسی کو اسلامی سزائیں ظالمانہ لگتی ہیں تو کسی کو شرعی لباس سے تکلیف پہنچتی ہے۔ نہیں بھائی نہیں۔ جب باقی سب کچھ ڈیجیٹل ہے تو انہیں اسلام بھی ڈیجیٹل دے دو۔ جس میں خدا کی مرضی نہیں ان کی مرضی چلے۔ اور پھر زور خالق پر نہیں چلتا تو مولوی پر غصہ نکال لیتے ہیں۔
عصر حاضر کا سب سے بڑا فتنہ شاید یہی مذہب میں جدیدیت کی آرزو ہے۔ اللہ کریم درست تجزیہ کرنے کے صلاحیت عطا فرمائیں۔