1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Baang e Nakhwasta

Baang e Nakhwasta

بانگ ناخواستہ

پرانی بات ہے، ڈائیوو کمپنی موٹر وے بنارہی تھی۔ ایک اندرون ملک فضائی سفر کے دوران ہمارا ہمسفر ایک کورین انجینئر بنا۔ کافی عرصہ سے پاکستان میں تھا اور سہولت بلکہ روانی سے انگریزی بول رہا تھا۔ ہمیں کوریا کی صنعتی ترقی کی وجہ جاننے کا دیرینہ اشتیاق تھا، اور پاکستانی صنعتی ڈھانچہ سے متعارف ہوئے بھی لگ بھگ پانچ، چھ سال ہوچکے تھے، سو ہم نے انکا اور اپنا فرق جاننے کے لیے اس انجینئر سے بہت سے سوالات کیے۔ ان سوالات کے جوابات سے جو خام سی معلومات حاصل ہوئیں وہ کچھ ایسے ہیں۔

کوریا میں بھی بالکل پاکستان کی طرح ہی بہت بڑی، درمیانی، چھوٹی اور بہت چھوٹی فیکٹریاں ہیں۔ بہت بڑی سے یہاں مراد سینکڑوں ملازمین پر مشتمل، درمیانی سے مراد سو سےکم، چھوٹی سے مراد پچیس سے کم اور بہت چھوٹی سے مراد دس سے کم ملازمین پر مشتمل فیکٹریاں ہیں۔ بڑی کمپنیوں جیسے کار، بسیں، جہاز یا دیگر مشینیں وغیرہ بنانے والی کمپنیوں کیلئے درمیانی کمپنیاں پرزے بناتے ہیں۔ درمیانی کمپنیاں اپنا کچھ کام چھوٹی اور بہت چھوٹی کمپنیوں سےکروا کر بالآخر بڑی کمپنیوں کو پرزے سپلائی کرتی ہیں جو کاریں اور بسیں اور مشینری وغیرہ بناتے ہیں۔ گویا کوریا یا چین میں ایک خراد مشین رکھنے والا خرادیہ بھی اس معیار کے پرزے بناتا ہے یا بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جو ڈائیوو کمپنی کے لیے قابل قبول ہوتے ہیں۔

ہمارے ہاں بھی اس سے ملتا جلتا نظام ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ ہماری چھوٹی کمپنیاں اور بہت چھوٹی کمپنیاں علم وہنر کے اس معیار پر نہیں کہ انکے بنائے گئے پرزے کسی کار یا بس کی تیاری میں استعمال ہوسکیں۔ بلکہ بہت سی درمیانی کمپنیاں بھی ٹیکنالوجی، ہنر اور مشینری کی لحاظ سے اس قابل نہیں کہ عالمی معیار کی کسی کار یا بس کے پرزے بناسکیں۔

یہی وجہ ہے کہ کہ ہمارے ہاں بہت سی صنعتیں ہونے کے باوجود بالکل عام اور کم معیار کے پرزے تیار ہوتے ہیں جن کی قیمت بھی انتہائی کم ملتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ایک تو منافع بہت کم ہونے کی وجہ سے معاشی طور پر صنعت میں پیسے کی اتنی ریل پیل نہیں جتنا کہ کوریا یا حتی کہ چین کی صنعتوں کے پاس ہے۔ دوسرا نقصان اس عمل کا یہ ہے کہ بہرحال ہمیں اپنی ملکی ضروریات کیلئے اچھے معیار کے یر طرح کے پرزے باہر کے ممالک سے ہی منگوانا پڑتے ہیں جس پر اربوں ڈالر سالانہ زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔

اس سارے معاملہ میں جو بنیادی کجی ہے وہ ہے ہنرمندی کی کمی۔ ہمارے ہنرمند کام کی بالکل بنیادی باتوں سے ہی آشنا نہیں اور اس کی بڑی وجہ ہے ہنرمندی کی باقاعدہ تربیت کا فقدان۔ ملک بھر میں خراد یا پرزہ جات بنانے والی دوسری مشینوں کے استعمال کی باقاعدہ تربیت تقریباً صفر ہے۔ ہر طرح کے تمام ہنرمند بطور شاگرد اداروں میں بھرتی ہوتے ہیں اور سالہا سال میں دستیاب علم اور تربیت حاصل کرنے کے بعد کاریگر بنتے ہیں۔ صنعتوں میں تربیت کا یہ عمل اسقدر پیچیدہ اوراتنا زیادہ وقت لیتا ہے کہ عملاً اب کوئی کاریگر بننے پر آمادہ ہی نہیں۔ دوسری طرف یہی کام اگر باقاعدہ ادارے میں کورس کی صورت میں سکھایا جائے تو محض ایک سال میں کوئی بھی شخص اس سے کہیں بہتر کاریگر بن سکتا ہے جتنا وہ کسی ادارے میں دس سال میں بنتا ہے۔

ہم نے بھارت کے ہنر مندی کے نظام کا تھوڑا سا جائزہ لیا۔ وہاں مڈل کے بعد دوسال کا خرادیہ کورس ہے۔ جس کا سلیبس دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ابتدائی ابواب میں ہی وہ معلومات موجود ہیں۔ جن سے ہمارے کاریگر بیس بیس سال کام کرنے کے بعد نابلد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت ہر صنعتی شعبہ میں ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی ہمارے کسی پالیسی ساز کے ذہن یا سرکار کی ترجیحات میں کہیں ہنرمندی کی تربیت شامل نہیں۔ لیکن یہ بات بہرحال طے ہے کہ صنعتی ترقی کے بغیرقومی معیشت میں دیرپا بہتری کی کوئی صورت نہیں اور صنعت کی ترقی ہنرمندی کی تربیت کے بغیر دیوانے کا خواب ہے۔ ہمیں آج نوجوانوں کو جنگی بنیادوں پر نوجوانوں کو ہنر سکھانے اور تربیت دینے کی ضرورت ہے، ہمارے لیے یہ ہنرمندی اور تربیت? موٹرویز، میٹروز اور مہمان خانوں سے کہیں زیادہ اہم ہے مگر نہیں معلوم کون، کب کیسے وزارت صنعت وزارت منصوبہ بندی اور وزارت تعلیم کو یہ بنیادی باتیں اور ان کی اہمیت باور کروائے گا۔۔ نہیں معلوم ہمیں کب ہوش آئے گی۔

Check Also

Aisi Bulandi, Aisi Pasti

By Prof. Riffat Mazhar