1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Angrez

Angrez

انگریز

ایک افریقی آدم خور قبیلے کا سربراہ اپنے بچوں کو رازدارانہ انداز میں بتا رہا تھا "انگریز دیکھنے میں بڑے خوبصورت اور کھانے میں بڑے لذیذ ہوتے ہیں "اور انگریز ہر اس شخص کو کہتے ہیں جس کی جلد اور خون سفید ہو اور وہ انگریزی بولتا ہو۔ البتہ بیشتر ہموطنوں کے خیال میں انگریزی کی شرط غیر ضروری ہے۔ گویا جس طرح کچھ پاکستانی سمجھدار بھی ہوتے ہیں اسی طرح کچھ انگریزوں کو انگریزی نہیں بھی آتی۔ مثلاً جرمن، فرانسیسی۔ حالانکہ یہ انگریزی اور انگریزوں سے نفرت کرتے ہیں مگر ہماری نظر میں پھر بھی انگریز ہی ہیں۔

" انگریز، ایک عظیم اور مفید جانور ہے" قابل خرگوشوی اکثر کہا کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ہر چیز پر بے تحاشہ غوروفکر کرتے ہیں۔ بال کی کھال اتارنے کی اس عادت کی وجہ سے علم وآگہی میں دوسری قوموں سے اسقدر آگے چلے گئے ہیں کہ عملاً پوری دنیا پر حکومت کرتے ہیں۔ مایوس دقیانوسی مگر کہتے ہیں بال کی کھال اتارتے اتارتے، غریب دے بال کی کھال اتارنے میں بھی طاق ہوگئے ہیں۔ دنیا بھر میں شاید ہی کوئی غریب دا بال ہو جس کی کھال ان کے دستِ ابیض کی برد سے بچی ہو۔

پہلے پہل ہمارا خیال تھا کہ چونکہ انگریزوں کا بچہ بچہ انگریزی بولتا ہے اس لیے انہوں نے اتنی ترقی کر لی۔ لہذا ہم نے بھی اپنے بچے بچے کو انگریزی سیکھنے پر لگا دیا۔ لیکن ترقی پھر بھی نہ ہوئی، اب شاید کسی نے بتا دیا ہے کہ ترقی انگریزی کی وجہ سے نہیں گوری رنگت کی وجہ سے ہے، تب سے ہماری بچی بچی گورا ہونے کے چکر میں ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ گورا کرنے کیلئے کریم ہمیں پھر گوروں نے ہی بنا کردیں۔ ورنہ ہم تو ابھی بمشکل نقلی دودھ سے نقلی شہد تک ہی پہنچ پائے تھے۔

آزاد روشن خیالوی، انگریزوں کے معاملے میں قابل خرگوشوی سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ وہ کہتے ہیں انگریزنی خدا کی سب سے زبردست تخلیق ہے، حالانکہ عام حالات میں وہ خداکو کم ہی مانتے ہیں، لیکن اس معاملے میں کہتے ہیں

خدا کا شکر ادا کر بھائی

جس نے یہ انگریزنی بنائی

یقیناً اس 'یہ' سے انکی مراد صوفیہ لورین سے سکارلیٹ جانس تک کی ایک طویل فہرست ہوگی، کہتے ہیں انگریزنیوں کی دو باتیں کمال ہوتی ہیں ایک انکا لباس اور دوسرا اس کا عدم استعمال۔ جب لوگ کہتے ہیں انگریز دنیا پر حکومت کرتے ہیں، یہ کہتے ہیں انگریزنیاں دلوں پر حکومت کرتی ہیں۔

ہمیں ٹھیک سے یاد نہیں کہ ہم نے پہلی بار انگریز کب دیکھا۔ اورنہ یہ کہ انہوں نے ہمیں پہلی بار کب دیکھا۔ مگر اتنا ضرور یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں بہت سے انگریز وطن عزیز کی سیاحت کیلئے آیا کرتے تھے۔ عہد شباب میں جب کبھی پہاڑوں پر جانا ہوتا ہر طرف انگریز ہی انگریز ہوتے اور تھوڑے بہت انسان۔ پھر انہوں نے ہمیں 'مشرف' بہ اسلام کردیا اب وہ خود ہی ہم سے ڈرتے ہیں۔ حالانکہ انکا خیال ہے کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتے۔

انگریزوں کی دوبڑی قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو فلموں میں دکھائے جاتے ہیں، بہادر، ذہین، خوبصورت، ہمدرد معاملہ فہم اور دوسرے اصل انگریز۔ انگریز برگز، سٹیک اور غریب ملکوں کے وسائل شوق سے کھاتا ہے۔ جبکہ پینے میں امریکی کوک، جرمن بیئر، عربی تیل اور اسلامی لہو پسند ہے۔ جانوروں سے بہت لگاؤ رکھتے ہیں۔ خصوصاً کتے بہت شوق سے پالتے ہیں۔ ان سے بہت کچھ سیکھتے بھی ہیں۔ بطور خاص نظام ازدواج واختلاط۔

قابل خرگوشوی کہتے ہیں انگریزوں کے ہم پر بہت احسانات ہیں۔ ہم نے پوچھا کون کون سے۔ بولے بال پن، موٹرسائیکل کا کیرئیر، ٹوتھ پک، سردرد کی گولی، بچوں کے پیمپر، الیکٹرک شیور اور چائے۔ ارے یہ کیا۔ جہاز، کمپیوٹر، ائیر کنڈیشنرز، گاڑیوں اور ایم آرآئی مشینوں کے ہوتے ہوئے آپ صرف بے وقعت اشیاء پر احسان مندی جتا رہے ہیں۔ بولے جو ہمارے زیرِ استعمال ہیں، ہم پر شکرگذاری صرف ان کیلئے فرض ہے۔ باقیوں کے لیے آپ جانیں اور وہ۔

انگریزوں کی کونسی عادت بہت ناپسند ہے۔ ہم نے پوچھا۔ کہنے لگے شازشیں بہت کرتے ہیں۔ وہ کیسے۔ ہم حیران ہوئے۔ بولے اپنے کسی جھگی نشین، کسی کچی آبادی کے مکین، کسی بے کس ذہین سے پوچھ کر دیکھ لو۔ کہ انکی یہ زبوں حالی کیونکر ہے۔ فوراً کہے گا انگریزوں کی سازش۔ وطن عزیز میں یہ لسانی تعصبات، یہ مسلکی اختلافات، انگریزی سازش۔ یہ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم یہ عدم برداشت یہ بدعنوانی سب انگریزوں کی سازش ہی تو ہے۔ اوہ تو یہ بات ہے۔ پھر تو مصنوعی سیاروں کی مدد سے بنا ڈرائیور گاڑی سے لیکر ایک ایکڑ سے ایک سو بیس من گندم اگانا تک سب انگریزوں کی سازش ہے۔ جانے یہ انگریز ہمارے خلاف سازشوں سے کب باز آئیں گے۔

Check Also

Tehreek e Azadi e Kashmir Par Likhi Gayi Mustanad Tareekhi Kitaben

By Professor Inam Ul Haq