Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hussnain Nisar
  4. Ye Kaisa Pakistan Hai?

Ye Kaisa Pakistan Hai?

یہ کیسا پاکستان ہے؟

کسی تقریب سے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کی حال ہی میں کی گئی تقریر کا ویڈیو کلب سنا جس میں اُنہوں نے ایک ایسی بات کی جو بحیثیت قوم ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ "پاکستان جو اسلام کے نام پر قائم ہوا اس پاکستان میں ہم کب تک اسلام کا دفاع کرتے رہیں گے؟" اُنہوں نے کہا کہ "ہمیں اسلام کا یہاں دفاع نہیں بلکہ اسلام کا نفاذ کرنا ہے۔ "

وہ کہتے ہیں کہ "مغرب کی طرف سے ہم پر حملے ہو رہے ہیں یعنی ہمیں اسلام سے دور کیا جا رہا ہے، ہماری مذہبی و معاشرتی اقدار کو تباہ کیا جا رہا ہے اور ہم اس پر اپنے ہی ملک میں دفاعی پوزیشن میں آ گئے ہیں"۔ سینیٹر صاحب نے کہا کہ "اسلام کے معاملے پر ہمیں دفاعی نہیں، جارحانہ پالیسی اپنانا ہو گی کیونکہ اسلام پر بیرونی اور اندرونی حملے ہو رہے ہیں اور ہم یہاں دفاعی پوزیشن لیے ہوئے ہیں۔ "

جو کچھ سینیٹر صاحب نے کہا وہ سو فیصد درست ہے۔ جب سے پاکستان بنا، اسلام کے نام پر قوم سے دھوکہ کیا گیا لیکن گزشتہ دو دہائیوں خصوصاً جنرل مشرف کے دور اور 9/11 کے بعد تو اسلام کی بات کرنے والوں کو دفاعی پوزیشن میں دھکیل دیا گیا۔ اسلام کا نفاذ تو ایک خواب بن کر رہ گیا ہے، اسلام کی بات کرنے والوں کو شدت پسندی سے ایسا نتھی کیا گیا اور روشن خیالی، انسانی حقوق، حقوق نسواں، برابری اور نجانے کیسے کیسے نعروں کے ذریعے مغربی سوچ کو میڈیا اور این جی اوز وغیرہ کے توسط سے کچھ اس طرح پھیلایا گیا کہ بہت سے اسلام کی بات کرنے والوں کو خاموش کرا دیا گیا۔

کئی لوگوں نے تو اپنے اسلامی نظریہ کو چھوڑ کر روشن خیالی اور لبرلزم کی باتیں کرنا شروع کر دیں۔ اب اگر کوئی اسلام کے نفاذ، کسی غیر اسلامی اقدام یا فحاشی و عریانی کے خلاف بات کرے تو اُسے موجودہ زمانے کے لیے ان فٹ قرار دے دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ تو fundamentalists ہیں، یہ تو پرانے زمانے کی باتیں کرنے والے لوگ ہیں، ان کا اس ماڈرن دنیا سے کیا لینا دینا؟

یہ کیسا پاکستان ہے جہاں سود کے خاتمے کیلئے منت ترلے کیے جا رہے ہیں لیکن حکومت بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس لعنت کے دفاع کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ چلی جائے اور ماسوائے چند ایک مذہبی سیاسی جماعتوں کے کوئی اس پر آواز تک نہ اُٹھائے؟ یہ کیسا پاکستان ہے جہاں ہم جنس پرستی کے فروغ کے لیے تو مختلف حیلے بہانوں سے کھلے عام کام ہو رہا ہو، متنازعہ قوانین بھی بنائے جا رہے ہوں لیکن ایسے غیر اسلامی اقدامات کی مخالفت کرنے والوں کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا جائے؟

یہ کیسا پاکستان ہے جہاں فحاشی و عریانی پھیلانے والوں کو تو کھلی چھٹی ہے اور وہ اسے عورت کی آزادی اور ترقی کے نام پر سپورٹ کرنے میں بھی آزاد ہیں لیکن جب کوئی اس معاشرتی خرابی کے خلاف بات کرتا ہے تو اُس پر مورل پولیسنگ (moral policing) کا ٹھپا لگا کر اُسے خاموش کرا دیا جاتا ہے؟ یہ کیسا پاکستان ہے جہاں آئین میں درج اسلامی شقوں کی کھلے عام خلاف ورزی ہو رہی ہو اور اس پر نہ کوئی عدالت بولے نہ پارلیمنٹ، نہ میڈیا لیکن اس کے برعکس ایک ڈپٹی سپیکر کی طرف سے عدم اعتماد کی تحریک کو ختم کرنے کی رولنگ کو آئین سے غداری اور اس پر حملہ قرار دے دیا جائے؟

یہ کیسا پاکستان ہے جہاں پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا آئین کی اسلامی شقوں کے ساتھ سوتیلی اولاد جیسا سلوک کرتے ہوں؟ بحیثیت قوم ہم مغربی کلچر کی یلغار سے اس قدر مرعوب ہیں کہ حق اور باطل میں تفریق کرنے سے بھی قاصر ہو چکے ہیں۔ ہم اسلام کی بات کرتے ہوئے جھجکتے ہیں جب کہ مغرب کی نقالی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس معاملے پر ہم سب کو انفرادی اور اجتماعی طور پر سوچنا ہو گا، غور کرنا ہو گا تاکہ اپنی غلطیوں کا ادراک کر سکیں، اس سے پہلے کہ ہم اپنی دنیا و آخرت کو تباہ کر بیٹھیں۔

Check Also

Lahu Ka Raag

By Mojahid Mirza