Shahadat Ameer Ul Momineen Syedna Umar Farooq e Azam
شہادت امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ
حضرت عمرو بن میمونؒ بیان کرتے ہیں کہ جس دن حضرت سیدنا عمرؓ زخمی ہوئے، میں نماز فجر کیلئے صف میں موجود تھا، میرے اور حضرت عمرؓ کے درمیان صرف حضرت عبداللہ بن عباسؓ ہی تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ کی عادت تھی کہ جب صفوں کے درمیان سے گزرتے تو فرماتے "برابر ہو جاؤ" جب وہ دیکھتے کہ صفوں میں خلا نہیں رہا تو آگے بڑھتے اور تکبیر تحریمہ کہتے۔ آپؓ پہلی رکعت میں سورت یوسف یا سورت نحل یا اتنی ہی طویل کوئی اور سورت پڑھتے تھےتاکہ لوگ جماعت میں شامل ہو جائیں۔
اس دن ابھی آپ نےتکبیر تحریمہ ہی کہی تھی میں نے آپؓ کی آواز سنی، مجوسی غلام ابولؤلؤ فیروز مجوسی (دو دھاری خنجر سے) آپؓ پر حملہ آور ہوا، پھر وہ اپنا دو دھاری خنجر لیکر دائیں بائیں وار کرتا ہوا آگے بڑھا۔ یہاں تک کہ اُس نے 13 حضرات کو زخمی کیا، جن میں سات حضرات شہید ہو گئے۔ ایک صحابیؓ نے اِس ملعون پر کپڑا ڈال کر جب اُسےجکڑ لیا تو اُس ملعون ابولؤلؤ فیروز مجوسی نے خودکشی کرکے اپنےآپ کو جہنم واصل کرلیا۔ اُدھر حضرت عمرؓ نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا ہاتھ پکڑا اور اِنہیں امامت کیلئے مصلے پر کھڑا کر دیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے مختصر نماز پڑھائی۔
نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرت عمرؓ نےفرمایا! اے ابن عباسؓ! دیکھو کس نے مجھ پر حملہ کیا؟ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے عرض کیا، حضر مغیرہ بن شعبہؓ کے غلام نے (آپؓ پر حملہ کیا)۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا! جو لوہار ہے؟ حضرت ابن عباسؓ نے عرض کی۔ جی ہاں، حضرت عمرؓ نے فرمایا، اللہ اُسے برباد کرے، میں نے تو اس کیلئے بھلائی کا حکم دیا۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے میری موت کسی ایسے آدمی کے ہاتھوں مقدر نہیں کی جو اسلام کا مدعی ہو۔ بعد ازاں زخمی حالت میں حضرت عمر فاروقؓ کو اُنکے گھر منتقل کیا گیا۔ ہم بھی آپؓ کے ساتھ ساتھ آئے۔ (یہ اتنا المناک دن تھا) ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے لوگوں پر اس سے پہلے کبھی اتنی بڑی مصیبت آئی ہی نہیں۔ پھر نبیذ لائی گئی، سیدنا عمر فاروقؓ نے وہ نبیذ پی لی لیکن ساری نبیذ پیٹ کے زخموں سے باہر نکل آئی، پھر دودھ لایا گیا وہ بھی آپؓ نے پہ لیا لیکن وہ بھی پیٹ کے زخموں کے راستے نکل گیا۔ یہ دیکھ کر لوگوں کو یقین ہوگیا کہ امیرالمومنینؓ کی شہادت یقینی ہے۔
اسی دوران ایک نوجوان آکر عرض کرنے لگا اے امیر المؤمنینؓ! آپؓ کو اللہ تعالی کیطرف سے خوشخبری ہو کہ آپؓ کو رسول اللہﷺکی رفاقت حاصل رہی اور آپؓ نے ابتدائی دور میں اسلام لانے کا شرف حاصل کیا۔ جو آپؓ کو معلوم ہے پھر آپؓ خلیفہ بنائے گئے اور آپؓ نے پورے انصاف کیساتھ حکومت کی اور (آپؓ کو شہادت نصیب ہوئی) سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ میں تو اس بات پر بھی خوش ہوں کہ ان تمام باتوں کیوجہ سے میرا معاملہ برابری پر ہی ختم ہو جائے۔ پھر وہ نوجوان واپس ہوا تو اسکا تہہ بند زمین پر گھسٹ رہا تھا، آپؓ نے فرمایا، اس نوجوان کو واپس بلاؤ۔ جب وہ آیا تو آپؓ نے فرمایا، میرے بھتیجے! اپنا تہہ بند اوپر اٹھاؤ۔ اس سے کپڑا صاف رہے گا اور یہ عمل اللہ کے ہاں تقوی کا باعث بھی ہوگا۔ پھر فرمایا، اے عبداللہ ابن عمرؓ! دیکھو بیٹے میرے ذمے کرنا قرض ہے؟ حساب لگا گیا تو کل قرضہ تقریباً چھیاسی ہزار (ہزار) تھا۔
حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہؓ ابن عمرؓ کو قرض کی ادائیگی کاحکم دیا اور فرمایا کہ تم اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے پاس جاؤ اور اُنہیں کہنا کہ عمرؓ نےآپؓ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے، اُن سے عرض کرنا کہ عمر بن خطابؓ اپنے دو ساتھیوں کیساتھ (حجرے میں) دفن ہونے کی اجازت مانگتا ہے۔ حضرت عبداللہؓ ابن عمرؓ نے اُم المؤمنینؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کیا اور اجازت لیکر حجرہ شریف میں داخل ہو گئے، دیکھا کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ رو رہی ہیں، حضرت عبداللہؓ ابن عمرؓ نے عرض کی۔ عمر بن خطابؓ آپؓ کو سلام کہتے ہیں اور اُنہوں نے اپنے دو ساتھیوں کیساتھ (آپؓ کے حجرے میں) دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے۔
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا میں نے یہ جگہ اپنے لئے خاص کر رکھی تھی مگر آج میں انہیں اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں۔ حضرت عبداللہؓ ابن عمرؓ نے واپس آ کر امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ سے عرض کیا کہ اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے اجازت دے دی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے میرے لئے سب سے اہم معاملہ یہی تھا۔ دیکھو! جب میں دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو مجھے اٹھا کر لے جانا اور ایک بار پھر اُن سے (اُن کےحجرہ شریف میں) مجھے دفن کرنے کی درخواست کرنا، اگر اجازت مل جائے تو حجرہ اقدس میں دفن کر دینا اور اگر اجازت نہ دیں تو مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔
بخاری شریف میں روایت ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ کی رحلت کے بعد حضرت ابن عمرؓ نے اُم المؤمنین سیدہ عائشہؓ سے دوسری بار اجازت لیکر امیرالمؤمنین حضرت عمرؓ کو روضہ اقدسﷺ میں ان کے دونوں ساتھیوں (حضور نبی کریمﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ) کے ساتھ دفن کر دیا۔۔
حضرت عمرو بن میمون فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ پر حملہ ہوا تو میں نے انکی زبان سے تلاوت سنی، آپؓ قرآن مجید کی یہ والی آیت مبارکہ پڑھ رہے تھے۔ ترجمہ! اور اللہ کا حکم ہمیشہ سے اندازے کے مطابق ہے، جو طے کیا ہوا ہے۔
مشہور تاریخی روایات سے یہی بات ثابت ہے کہ 23 ہجری 26 یا 27 ذوالحجہ کو نماز فجر میں سیدنا فاروق اعظمؓ پر ابولؤلؤ فیرزو مجوسی ملعون نے حملہ کیا اور تین دن کے بعد یکم محرم الحرام کو امیرالمومنین سیدنا فاروق اعظمؓ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ صحیح قول کے مطابق بوقت شھادت انکی عمر مبارک 63 سال تھی۔ آپؓ کی مدتِ خلافت دس سال، چھ ماہ تین دن پر محیط ہے۔
حضرت معاویہؓ نے فرمایا رسول اللہﷺ نے رحلت فرمائی تو انکی عمر مبارک تریسٹھ (63)سال تھی، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے رحلت فرمائی تو انکی عمر مبارک تریسٹھ (63) سال تھی اور حضرت عمر فاروقؓ شہید ہوئے تو انکی عمر مبارک تریسٹھ (63) سال تھی۔ حضرت عبدللہؓ ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضرت صہیب بن سنانؓ رومی نے آپؓ کی نمازِ جنازہ مسجد نبویﷺ میں پڑھائی۔ علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں کہ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ کی قبر میں چار افراد حضرت عثمانؓ، حضرت سعید بن زیدؓ، حضرت صہیبؓ اور حضرت عبداللہؓ ابن عمرؓ اترے۔
امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروقؓ کی تدفین حجرہ نبویہ شریفﷺ میں ہوئی۔