Monday, 18 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hussnain Nisar
  4. Nursing Ka Almi Din

Nursing Ka Almi Din

نرسنگ کا عالمی دن

1965 سے ہر سال 12 مئی کو نرسنگ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس تاریخ کا انتخاب جدید نرسنگ کی بانی فلورینس نائٹنگل کی سالگرہ کے باعث رکھا گیا ہے۔ جن سے متاثر ہو کے دنیا بھر سے لاکھوں افراد اس شعبے سے منسلک ہیں۔ پاکستان میں بھی تقریباََ ستر ہزار سے زائد افراد اس شعبے سے وابسطہ ہیں۔ مریضوں کی دیکھ بھال میڈیکل مشینوں کی ذمے داری اور اس جسے کئی کاموں کو سر انجام دینےکے باعث نرسنگ کا شعبہ انتہائی محنت طلب ہے۔

پاکستان میں نرسز اور مریضوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ تقریباً دو ہزار مریضوں کے لیے ایک نرس ہے۔ یہی وجہ ہےکہ ایک نرس کئی مریضوں کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ ICU میں ون ریشو ون ہونا چاہیے یعنی ایک مریض پر ایک نرس کو خدمت سر انجام دینا چاہیے۔ کام کی زیادتی اور کم تنخواہوں کے باوجود یہ افراد اپنے شعبے سے انتہائی مخلص ہیں۔ زمین پر فرشتوں کے روپ میں نرسز اپنے مسائل و غم بھلا کر سخت تکالیف میں مبتلا مریضوں کی خدمت کرتی ہیں۔

نرسنگ کے شعبے سے منسلک یہ افراد معاشرے سے اس رویہ کا تقاضا کرتے ہیں جو ان کا اس مقدس شعبے سے لگاؤ قائم رکھے۔ صحت کے شعبے میں ڈاکٹر کے بعد نرسنگ کی بہت اہمیت ہے۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اگر نرسز نہ ہوں تو صحت کا شعبہ درست طریقے سے کام نہیں کر سکتا۔ "اپنے شعبے کے حوالے سے نرسز کا کہنا ہےکہ وہ خدمت کے جذبے سے اس شعبے میں آئی ہیں"۔

مگر بیشتر اوقات مریض اور اُن کے اہلِ خانہ اِنہیں اِن کی خدمت کا صِلہ نہیں دیتے اِن کا رویہ اچھا نہیں ہوتا۔ لیکن اس بات کو نظر انداز کر کے اپنے مریض کا کام کرتی ہیں کہ یہ چیز اِن کے شعبے کا حصہ ہے۔ "نرسز کا بھی یہ ہی کہنا ہے کہ صحت کے شعبے میں اِنکا مرکزی کردار ہے مگر اسے تسلیم نہیں کیا جاتا اور دفاتر میں اِنہیں وہ سہولیات نہیں ملتی جو اِنہیں ملنی چاہے"۔

"ڈاکٹر مسیحا ہے تو نرس مسیحائی کے جذبے کو خدمت سے زندگی بخشتی ہے۔ دونوں کی قدر و منزلت کسی اعتبار سے کم نہیں"۔ جب کوئی حادثہ پیش آ جاۓ تو ہسپتال میں سب سے پہلے نرس ہی مریض کی دیکھ بھال کے لیے آتی ہے۔ بھڑتی ہوئی مہنگائی اور غیر یقینی مستقبل کے باعث نرسز میں بیرونِ ملک ملازمت کا رجحان تیزی سے بھڑتا جا رہا ہے۔

ہسپتالوں میں موجود نرسنگ کے شعبے سے منسلک خواتین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اِنہیں آج بھی وہ مقام حاصل نہیں جن کی وہ حقدار ہیں۔ دنیا بھر میں نرسنگ کے شعبے کو قدر کی نِگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں اس شعبے کو پذیرائی نہ ملنے کی وجہ سے لوگوں کا رجحان اِس شعبے کی طرف سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ جو کہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔ "مریضوں کی خدمت اور اُن کے سگوں سے زیادہ اپنائیت دے کر اپنے فرائض سر انجام دیتے ہوۓ اپنے شعبے سے اتنی ایماندار ہوتی ہیں جس کا اندازہ لگانا شائد نا ممکن ہو گا"۔

نرسنگ پروفیشن سے تعلق رکھنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ خدمتِ خلق کا جذبہ جس میں ہوتا ہے وہی اس شعبے میں آتا ہے۔ ڈاکٹر تو مریضوں کا معائنہ کرنے کے بعد چلے جاتے ہیں لیکن یہ نرسز ہی ہوتی ہیں جو تکلیف اور مشکل وقت میں مریض کا ہر ممکن خیال رکھتی ہیں تاکہ درد و تکلیف میں اِنہیں کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پٹرے۔ یہاں تک کہ جس مریض کے گھر والے بھی اِسے نہیں پوچھتے اِن کی دیکھ بھال بھی نرسز ہی کرتی ہیں۔

جو افراد خدمت کے جذبے سے اِس شعبے میں آئیں گے وہی اِس شعبے میں کامیاب رہ سکتے ہیں۔ نرسنگ نہ صرف ایک مقدس پیشہ ہے بلکہ عبادت کا درجہ بھی رکھتا ہے۔ اِس شعبے سے منسلک افراد دن رات انسانی خدمات کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ نرسنگ پروفیشن کے لیے دل میں جو عزت و احترام ہونا چاہیے ہمارے معاشرے میں اُس حساب سے نہیں پایا جاتا۔ دن ہو یا رات اِس شعبے سے منسلک افراد ہر وقت اِنسانی زندگی کو بچانے اور اِن کی خدمت کے لیے تیار رہتے ہیں لیکن اِس شعبے سے وابسطہ خواتین کا کہنا ہے کہ اِنہیں دفاتر میں وہ سہولیات نہیں مِل رہی جو دوسرے محکموں میں کام کرنے والی خواتین کو مل رہی ہیں۔

Check Also

Darya e Sindh Ki Kahani, Usi Ki Zubani

By Rao Manzar Hayat