Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Humayon Qaim Khani
  4. Pakistani Media (1)

Pakistani Media (1)

پاکستانی میڈیا (1)

کسی قوم کی ثقافت کو پرکھنا ہو تو اس ملک کا میڈیا بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ آسان حل تو یہ ہے کہ وہاں کے رہنے والے لوگوں کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، پہنا اُوڑھنا بچھونا وغیرہ دیکھ لیا جائے تو تہذیب و ثقافت کا علم ہو جائے گا۔ لیکن وہ افراد جو براہِ راست نہیں دیکھ سکتے وہ میڈیا کا سہارا لیں گے۔ جیسے ہم نے ترکی ڈراموں سے وہاں کی ثقافت کا اندازہ لگایا بلکل اسی طرح جو شخص پاکستانی ثقافت کو دیکھنا چاہے تو وہ بھی میڈیا کا سہارا لے گا پاکستانی ڈرامے اور مویز دیکھے گا۔

اگر ہم بات کریں ہمارے ملک کی جِسے "اسلامی جمہوریہ پاکستان" کہا جاتا ہے۔ اسلام کے نام پر بننے والی یہ ریاست اس کی ثقافت تو اسلامی تعلیمات کی عکاسی ہونی چاہیے تھی لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ایسا کچھ سلامت نہ رہا اور ڈرامے پاکستانی نہیں بلکل مغربی ثقافت کی عکاسی کرنے لگے۔ ہماری ڈرامہ انڈسٹریز کے لکھاری اور ڈائریکٹر کس طرح سے کام کر رہے ہیں؟

کیا لکھاریوں کے پاس دیور بھابی کے افئیر، ایک لڑکی کے کئی مردوں سے تعلق، گھریلو جھگڑوں، آپسی رنجشوں اور خونی رشتوں سے بغاوت کے علاؤہ کوئی دوسرا تیسرا موضوع نہیں؟ کیا ڈائریکٹرز کے پاس سکرین پر کام کرنے والوں کو لباس دینا نہیں آتا، کیا ان کے پاس اس شے کا لحاظ نہیں کہ ہماری گھریلو خواتین اور بچوں پر اس لباس اور پہناوے کا کیا اثر پڑے گا؟ ڈرامے کی کہانی کو عملی جامہ پہنانے والی ان خواتین کے پاس نہ تو اسلامی تہذیب کے عکاس لباس ہیں نہ ہی اسلامی معاشرے کی عکاسی کرنے والے حالات و معملات۔ کس طرح ہوں ہماری انڈسٹری غلام جو بن گئی ہے، کردارات یہاں کے لے کر کہانیاں وہاں کی لکھی جا رہی ہیں۔

افسوس! ہم اپنی ہی ثقافت کو دنیا کے سامنے بگاڑ رہے ہیں، اور بہت زور و شور سے۔ نہ ہی کہانی کا مواد اچھا نہ کردار میں جان جو ہمارے ملک کے لوگوں کی عکاسی کرتا۔ کیا سیکھے گی ہماری نئی پروان چڑھتی نسل۔ یہ سب جو دیکھایا جا رہا ہے۔ کیا اب اسلامی جمہوریہ ملک میں اس طرح کے شوز دکھائے جائیں گے جن میں ماں کو بیٹے سے حیاء نہیں، بیٹی کو باپ اور بھائی کا کوئی لحاظ نہیں اور تو اور بیوی کے کردار کو کیسا پیش کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ سب دیکھ کر ہماری خواتین پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے؟

یہ ڈرامے، یہ ٹی وی شوز کچھ نہیں ہیں یہ سراسر ذہن سازی کے اڈے ہیں جن کے ذریعے ہماری اجتماعی طور پر مغربی طور طریقوں اور غلیظ آزادی کے متعلق ذہن سازی کی جا رہی ہے۔ اس کا سب بڑا نتیجہ تو ہم نے عورت مارچ کی صورت دیکھ ہی لیا ہے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ جب ہم ٹیلی ویژن آن کرتے تو ہمیں اس غلاظت کے بجائے ہمارے اکابرین سمیت دیگر حقیقی ہیروز کی زندگی کے حالات و واقعات کی کہانیاں بامہزب انداز میں دیکھنے کو ملتی۔

ہمیں دیکھایا جاتا کہ ہمارا اسلام کتنی طاقت رکھتا ہے، ہمیں سیکھایا جاتا کہ شرم و حیاء ہوتی کیا ہے، ہماری تربیت کی جاتی کی اسلامی اصولوں کی روشنی میں زندگی کیسے جینی ہے۔ لیکن آج ہمارا دشمن ہمیں ہر میدان سے فارغ کروا کر محدود کر دینا چاہتا ہے جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوچکا ہے۔

یہ تو ہو چکا ڈرامہ انڈسٹری کا حال اس کے ساتھ ہم تک قومی و بین الاقوامی خبروں کو پہنچانے والے نیوز شوز اور نیوز چینل بھی کافی حد تک اسی دوڑ میں شامل ہیں۔ یہاں بھی خواتین اینکر پرسنز کا یہی حال کہ ان کا اوڑھنا مغرب کی یاد دلاتا ہے، سر دوپٹے سے آری ہے۔ کس طرح یہ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست کے ہیروز ہوئے یہ سراسر مغرب کی کٹ پتلیاں ہیں۔

Check Also

Bushra Bibi Aur Ali Amin Gandapur Ki Mushkilat

By Nusrat Javed