Hum Kyun Nahi?
ہم کیوں نہیں؟
پانچ آگست دوپہر ڈیڑھ بجے! پاکستان کے بعد وجود میں آنے والی ریاست بنگلہ دیش کی وہ وزیر اعظم جو تقریباً پچھلے بیس سال سے بر سرِ اقتدار تھیں مستعفی ہونے پر مجبور ہوئیں اور ہندوستان فرار ہوگئی۔ یہ کیا تھا؟ یہ سب کیوں ہوا؟ تقریباً تین ماہ قبل بنگلہ دیشی "وزیراعظم شیخ حسینہ واجد" نے ایک نیا قانون متعارف کروایا کہ 1971 کی جنگ میں حصہ لینے والوں کے بچوں اور اہل و عیال کے لیے نوکریوں میں 30 فیصد کوٹہ مختص کیا جائے گا، اس قانون کے نتیجے میں بنگلہ دیشی طلباء نے بھر پور غیرت مندی کا مظاہرہ کیا جس پر سپریم کورٹ نے اس کو رد کردیا لیکن پچھلے ایک ماہ سے طلباء کی جانب سے اپنے ساتھیوں کو حق دلانے کے لیے یہ دھرنا جاری رہا اور اس فیصلے کی خلاف ورزی بغاوت کی صورت میں کی گئی، جس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
بنگلہ دیش کے نوجوان طلبہ و طالبات نے حکومت کی اس مرضی پر بھر پور ردِ عمل دکھایا۔ وہ اس بات کے قائل ہوگئے کہ ہم نوجوان ہیں، یہ ملک ہمارا ہے، یہاں ہماری مرضی چلے گی اور وہ اپنی منوا کر ہی رہے۔ بنگلہ دیشی نوجوانوں نے کچھ نہیں سوچا فقط ایک سوچ ان کے ذہن میں تھی کہ یہ ملک ہمارا ہے اس میں ہمارے خلاف قانون ناقابلِ برداشت ہے، انھوں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلند پائے کا احتجاج کیا۔ اداروں کی طرف سے رکاوٹیں بھی حائل کرنے کی کوششیں جاری رہی لیکن یہ طلباء اپنے مطالبات اور مظاہرے پر ڈٹے رہے، یہاں تک کہ دفاترِ بالا تک پہنچ گئے پھر کیا تھا ادارے بھی مجبور اور حکومت بھی لہذا بنگلہ دیشی فوج نے منصفانہ فیصلہ کیا اور جس کے خلاف دہرنا جاری تھا اس محترمہ کو 45 منٹ کی ڈیڈ لائن دے دی جس میں وہ مستعفیٰ ہوکر ہندوستان فرار ہوگئی۔
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ فقط شاگرد نکلے اور تبدیلی لے آئے، وزیراعظم کو مستعفی ہونے پر مجبور تو کیا ہی ساتھ اسے ملک بھی چھوڑنا پڑا۔ یہ تھی طاقت اس جذبہ کی جس سے ہر بڑا معرکہ تے ہوجاتا ہے۔ بنگلہ دیشی نوجوانوں نے یہ ثابت کردیا کہ اس قوم کے معمار ہم ہیں، حقیقی طور پر یہ ملک ہمارا ہے۔ ہم پاکستانی جن میں جوش و خروش موجزن پایا جاتا ہے آخر ہم کب ایسا کچھ کریں گے یا فقط کمپنیز کے ڈر سے دب کر رہ جائیں گے۔ یاد رہے جب ہمت باندھ لی جائے تو راستے بھی ہمارے سنگ ہوجانے کو تیار رہتے ہیں۔ پچھلے 75 سالوں سے ہمیں منجن دیا جارہا ہے اور ملکی حالات بدتر سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ یہاں فقط وہ ہوتا ہے جو سسٹم چاہتا ہے، آخر کب تک یہ سب چلے گا؟ کب تک معصوم عوام اداروں اور حکمرانوں کے بہلاوے میں آتی رہی گی؟
یہاں ہماری بھی ایک غلطی ہے کہ جو ہمارے پاس ووٹ مانگنے آتا ہے ہم اسے منہ اٹھا کر ٹھپا دے دیتے ہیں۔ پھر ہوتا کیا ہے کہ وہ ہمارے سروں پر بیٹھ وہ کچھ کرتے ہیں جو ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کیا اس لیے اس وطن کو آزاد کروایا گیا تھا؟ کیا اس دن کے لیے ہمارے اجداد نے قربانیاں دی تھیں۔ اگر بنگلہ دیشی نوجوان اپنا آپ منوا سکتے ہیں تو پھر ہم کیوں نہیں؟ کیا ہم کسی دوسرے ملک سے لائے ہیں جو سسٹم کی چکی میں پستے چلے جائیں۔ اگر اب بھی ہماری قوم نہیں جاگی تو ہمارا کچھ نہیں ہوگا۔ الحمدللّٰہ کہ ہم پاکستانی ہیں لیکن اس کا حق بھی تو ادا کرنا ہے۔ یہ وطن ہمارا ہے اسے ہماری ضرورت ہے لیکن ہم کہیں کسی کے ڈر سے چپ ہیں، کہیں ہمیں واسطے داری نے روک رکھا ہے، کہیں ہم خود میں مصروف ہیں یا تو کہیں ہم نوجوانوں کو سوشل میڈیا احتجاج سے فراغت نہیں۔
کتاب سادہ رہے گی کب تک؟
کبھی تو آغاز باب ہوگا۔۔
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی
کبھی تو انکا حساب ہوگا۔۔