Zuban Par Qabza, Zehan Par Qabza, Ngugi Wa Thiongo Ki Roshni Mein
زبان پر قبضہ، ذہن پر قبضہ - نگوگی وا تھیونگو کی روشنی میں

نوآبادیاتی نظام کی سب سے طاقتور حکمت عملی بندوق یا توپ نہیں بلکہ زبان پر قبضہ تھا۔ کینیا کے ادیب نگوگی وا تھیونگو کی کتاب Decolonising the Mind اسی حکمت عملی کو بے نقاب کرتی ہے۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ جس زبان میں انسان سوچتا اور خواب دیکھتا ہے، اگر اسی زبان کو کمتر قرار دے دیا جائے تو اس کی تاریخ، تہذیب اور شناخت سب محکوم ہو جاتی ہے۔ نوآبادیاتی طاقت نے مقامی زبانوں کو پسِ پشت ڈال کر اپنی زبان کو برتر بنایا اور اس کے نتیجے میں کروڑوں لوگ اپنی جڑوں سے کاٹ دیے گئے۔
افریقہ کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں ایک اندازے کے مطابق ایک ہزار سے دو ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ صرف نائجیریا میں پانچ سو سے زائد زبانیں موجود ہیں، لیکن نوآبادیاتی حکمرانوں نے انگریزی کو ریاستی و تعلیمی زبان بنا کر مقامی زبانوں کو حاشیے پر دھکیل دیا۔ یہی عمل برصغیر، لاطینی امریکہ اور مشرقی ایشیا میں بھی ہوا۔ نگوگی کے مطابق یہ عمل محض لسانی نہیں بلکہ سیاسی اور تہذیبی تسلط کی بنیاد ہے۔
تعلیم میں زبان کا کردار سب سے بنیادی ہے۔ یونیسکو کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا کی تقریباً 40 فیصد آبادی کو ایسی زبان میں تعلیم میسر ہی نہیں جو وہ سمجھتے ہیں۔ جب ماں بولی کو ذریعۂ تعلیم نہ بنایا جائے تو سیکھنے کے نتائج کمزور رہتے ہیں اور یہ مسئلہ زیادہ تر غریب اور پسماندہ طبقات کو متاثر کرتا ہے۔ نگوگی اسی پہلو کو اجاگر کرتے ہیں کہ زبان کی آزادی کے بغیر علم کی مساوی رسائی ممکن نہیں۔
یہ بحث صرف علمی نہیں بلکہ عملی بھی ہے۔ 1962 میں یوگنڈا میں ہونے والی میکریرے کانفرنس میں افریقی ادب کے لیے زبان کے مسئلے پر شدید اختلاف ہوا۔ کچھ نے کہا کہ ادب صرف انگریزی میں عالمی سطح پر پہچانا جا سکتا ہے، لیکن نگوگی نے اس کے برعکس مؤقف اپنایا۔ انھوں نے اپنی تحریریں انگریزی کے بجائے گیکویو زبان میں لکھنی شروع کیں اور اپنی جدوجہد کو عملی جامہ پہنایا۔ جیل اور جلاوطنی ان کے راستے میں آئیں مگر وہ اپنی زبان پر ڈٹے رہے۔
کینیا کا آئین 2010 اسی بحث کا ایک نتیجہ ہے۔ اس کے مطابق کِسواحِلی کو قومی زبان قرار دیا گیا جبکہ انگریزی اور کِسواحِلی دونوں سرکاری زبانیں ہیں۔ ابتدائی تعلیم میں ماں بولی کو استعمال کرنے کی ہدایت دی گئی تاکہ بچے اپنی فہم کی زبان میں سیکھ سکیں۔ یہ نگوگی کے اس دعوے کی عملی تصدیق ہے کہ زبان کی آزادی ہی ذہنی آزادی کی بنیاد ہے۔
پاکستان کے تناظر میں یہ بحث اور بھی اہم ہے۔ برصغیر میں برطانوی راج نے فارسی اور مقامی زبانوں کو پسِ پشت ڈال کر انگریزی کو سرکاری زبان بنایا۔ آزادی کے بعد اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انگریزی آج بھی عدالتی، انتظامی اور تعلیمی نظام میں غلبہ رکھتی ہے۔ نتیجتاً ہمارا نظامِ تعلیم دو بڑے حصوں میں بٹ گیا: انگریزی میڈیم اور اردو/علاقائی زبان میڈیم۔ اس تقسیم نے معاشرے میں ایک نیا طبقاتی فرق پیدا کر دیا، جہاں انگریزی میڈیم سے نکلنے والا طالب علم طاقت، وسائل اور ملازمتوں تک آسانی سے رسائی پاتا ہے، جبکہ مقامی زبانوں میں پڑھنے والے پیچھے رہ جاتے ہیں۔
پاکستان کی بڑی لسانی اکائیاں، پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، سرائیکی اور دیگر زبانیں، کروڑوں لوگوں کی مادری زبانیں ہیں، لیکن ان زبانوں میں تعلیم اور تحقیق کا فقدان ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بچے اپنی ابتدائی تعلیم اس زبان میں حاصل نہیں کرتے جو ان کے گھر اور ماحول کی زبان ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نتائج عالمی معیار سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔
اعتراض کیا جاتا ہے کہ انگریزی یا دوسری عالمی زبانوں کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ نگوگی اس بات کو رد کرتے ہیں کہ مقامی زبان پر زور دینے کا مطلب عالمی تنہائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک سے زیادہ زبانیں اپنائی جا سکتی ہیں: ابتدائی تعلیم ماں بولی میں ہو اور بعد میں علاقائی اور بین الاقوامی زبانیں اضافی طور پر سکھائی جائیں۔ پاکستان بھی اسی ماڈل کو اپنا کر اپنی زبانوں کو تحفظ دے سکتا ہے اور تعلیمی معیار بہتر کر سکتا ہے۔
فرانز فینن نے کہا تھا کہ استعمار جسمانی غلامی کے بعد ذہنی غلامی پیدا کرتا ہے۔ نگوگی نے دکھایا کہ یہ ذہنی غلامی زبان کے ذریعے قائم کی گئی۔ پاکستان اگر اپنی زبانوں کو نظرانداز کرتا رہا تو ذہنی آزادی کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔ آج ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ انگریزی کی افادیت اپنی جگہ درست ہے، لیکن اس کے غلبے کے باعث ہم اپنی زبانوں، اپنی تاریخ اور اپنی تہذیبی جڑوں سے محروم ہو رہے ہیں۔
نگوگی وا تھیونگو نے اپنی زندگی اور قلم دونوں سے یہ ثابت کیا کہ "ذہنی استعماریت کا خاتمہ" محض ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک علمی، ثقافتی اور تعلیمی منصوبہ ہے۔ پاکستان کے لیے بھی یہی سبق ہے: اگر ہم اپنی زبانوں کو قومی پالیسی کا حصہ نہیں بنائیں گے تو ذہنی غلامی سے نکلنے کا سفر کبھی مکمل نہیں ہوگا۔

