Pohanchi Kitab Khuda Khuda Kar Ke
پہنچی کتاب خدا خدا کرکے
ہر انسان اپنا مخصوص لائف سٹائل رکھتا ہے۔ طرزِ زندگی سے فقط لباس، کھانا پینا، گھر و گاڑی یا بینک بیلنس نہیں۔ بلکہ انسان کا حلقہ یاراں بھی شامل ہے کہ انسان اپنی پہلی درس گاہ ماں کی گود پھر گھر و خاندان کے بعد اپنی اہم محفل یعنی دوستان سے ہی سیکھتا ہے۔ بندہِ حقیر اس بات پہ خدا کا شکر گزار ہے کہ خدا تعالی نے دوست بھی کیا خوب عطا کئے۔ ایک سے بڑھ کر دوسرا نام۔ انہیں دوستوں میں ایک نام "علی اصغر - ساہیوال" کا ہے۔
یہ نام زہن میں آتے ہیں ایک تصویر بنتی ہے کہ ایک ایسا انسان جس نے گھاٹ گھاٹ کا پینا پیا ہے، طرح طرح کی آزمائشوں کے بعد بھی سنتِ حسین علیہ السلام پہ چلنے کی کوشش کرتے ہوئے فقط خدا کی رضا کو ہی غنیمت جانا۔ اکثر سوچتا ہوں کہ اصغر بھائی کا کیریئر یا زندگی کتنے نشیب و فراز پہ مشتمل ہے۔ کبھی کچھ تھا تو بہت کچھ ہوگیا، جب بہت زیادہ ہوگیا تو کچھ نہ رہا۔ ایسے مواقعوں پہ بڑے بڑے جگروں اور بہادر لوگوں کے اعصاب کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، بڑے بڑے سورما شکست خُردہ زہن لے کر زمین میں گڑھ جاتے ہیں۔
ان کے ساتھ پہلی مرتبہ سوشل میڈیا کی سائٹ فیس بک پر بات چیت ہوئی، خلافِ توقع انہیں ہنس مکھ، پرخوص اور خصائص سے پُر پایا۔ کافی عرصہ یونہی ارتباط رہا۔ ایک دن اچانک کال آئی، حسنین؟ میں بھکر آرہا ہوں، آپ تیار رہیں، ملاقات ہوگی۔ کال کے بعد متذبذب رہا، دو سے تن گھنٹے انتظار میں۔۔۔ انتظار۔۔۔
آخر کار وہ گھڑی آن پہنچی کہ فنکا بینک کے سامنے آئے، پہلی نظر انہیں دیکھا اور یہ کال پہ مصروف تھے مگر اسی لمحے مڑ کر دیکھتے ہیں اور اشارے کرتے ہیں۔ کیسا پرلطف لمحہ تھا۔ گھنٹے سے زائد وقت پر مبنی ملاقات میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا، انکے تجربات نے Motivate کیا۔ چونکہ الحَمْدُ ِلله نظریات کے اعتبار اور Converty میں مشترک ہیں، اسکے علاوہ چند نجی معاملات میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔ اس ملاقات کے بعد ایک نیا تعلق و ارتباط شروع ہوا اور محبت و الفت بڑھتی چلی گئی۔۔۔
حال ہی میں انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے جوکہ "زادِ نجات" کے عنوان سے شائع ہوچکی ہے۔ اس کتاب کی بندہِ حقیر نے بھی ڈیمانڈ کی۔ برادر نے ٹی سی ایس کرنا چاہی، مگر حالیہ لاک ڈاؤن کےباعث نہ بھیج پائے۔ اس کتاب کا چرچا زبانِ زدِ عام ہے، سوشل میڈیا پہایک سے دوسرا بندہ تصویر لگا کر شکریہ ادا کررہا ہوتا ہے، ایسے میں مجھے غصہ بھی آتا اور افسوس بھی۔ اس کا اظہار کرنے پہ آگے بھائی ہنس دیتے۔۔۔ گویا لطف اندوز ہورہے ہوں۔
پھر ایک دن اکثر دوستان کو نسخے بھیجے، مجھے کالز کرتے رہے پر Silent اور بعد از فجر سو جانے کے باعث کال ریسیو نہ کر پایا۔ اگلے دن بھیجی۔۔۔ اب ایک بار پھر انتظار!!! اس انتظار میں دو دن گزر گئے۔۔۔ آج صبح ہی رابطہ ہوا اور پوچھا کتاب پہنچی؟ نفی میں جواب دینے پہ بولے آج پہنچ جائے گی۔۔۔
12 بجے ٹی سی ایس کے ڈیلیوری مین کی کال آئی اور کہا حسنین؟ جی۔۔۔ سر آپ کا پارسل۔۔۔ متعلقہ جگہ پہ ریسیو کی۔۔۔ کتاب تھام کر بہت خوشی ہورہی تھی، سرور سا تھا، وہ احساس نا قابلِ بیاں ہے۔ اور کتاب کو چوم کر پہلا جملہ۔۔۔ الحَمْدُ ِلله، آخر۔۔۔"پہنچی کتاب خدا خدا کرکے۔"