Pakistan, Afghanistan Aur Pashtun Sawal, Proxy Mafrooze Se Aage Aik Tajziati Jaiza
پاکستان، افغانستان اور پشتون سوال، پراکسی مفروضے سے آگے ایک تجزیاتی جائزہ

افغانستان اور پاکستان کے تعلقات برصغیر کی تقسیم کے بعد سے مسلسل تناؤ، غلط فہمی اور پراکسی نظریات کے گرد گھومتے رہے ہیں۔ اکثر مباحث میں پاکستان پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس نے افغان سرزمین پر اپنے مفادات کے لیے پراکسی گروہوں کی تشکیل کی اور بالخصوص پشتون خطہ اس پالیسی کی بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔ تاہم، اس مفروضے کو سمجھنے کے لیے محض جذباتی بیانیے نہیں بلکہ تاریخی حقائق، جغرافیائی حقیقت پسندی اور جدید تحقیقی ڈیٹا کا سہارا لینا ناگزیر ہے۔
1947ء کے بعد پاکستان کو مغربی سرحد پر ایک غیر مستحکم ہمسایہ ریاست ورثے میں ملی، جہاں سرد جنگ کے آغاز سے ہی سوویت یونین کے اثرات بڑھنے لگے۔ افغان سرزمین اس وقت عالمی طاقتوں کے مابین "گریٹ گیم" کا محور بن چکی تھی۔ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اسے مجبور کرتی تھی کہ وہ افغانستان میں رونما ہونے والے بدلاؤ سے لاتعلق نہ رہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر یہ کہنا کہ پاکستان نے محض مفاد کی خاطر افغان جہاد کو سہارا دیا، ادھورا تجزیہ ہوگا۔
امریکی تحقیقی ادارے RAND Corporation (2021) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 1980ء کی افغان پالیسی بنیادی طور پر سوویت توسیع پسندی کو روکنے کے لیے تھی، نہ کہ نسلی بنیاد پر کسی خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے۔ اسی رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر پاکستان اُس وقت غیر جانب دار رہتا تو روس کے اثرات بلوچستان اور بحیرۂ عرب تک پہنچ سکتے تھے۔
یہ سچ ہے کہ پشتون خطہ، بشمول خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات، طویل عرصے تک دہشت گردی، فوجی آپریشنز، ڈرون حملوں اور معاشی پسماندگی کا شکار رہا۔ لیکن اس کی تمام تر ذمہ داری ریاستی پالیسی پر ڈال دینا بھی سادہ لوحی ہے۔
World Bank (2023) کی ایک تحقیق کے مطابق فاٹا کے انضمام کے بعد تعلیمی و صحت کے اشاریوں میں 17 فیصد بہتری دیکھی گئی، جبکہ Pakistan Institute for Peace Studies (PIPS) کے مطابق 2015 سے 2023 کے درمیان دہشت گردی کے واقعات میں 67 فیصد کمی ہوئی۔ یہ اعداد و شمار اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ ریاست نے پشتون خطے کو ترقیاتی ڈھانچے میں ضم کرنے کے لیے دیرپا اقدامات کیے ہیں۔
ڈرون حملے ایک المناک حقیقت رہے ہیں، لیکن ان کا فیصلہ محض اسلام آباد میں نہیں بلکہ واشنگٹن کے دفاعی ڈھانچے میں ہوتا تھا۔ Stanford Universitys International Human Rights & Conflict Resolution Clinic (2012) کی رپورٹ کے مطابق امریکی ڈرون پالیسی کو "Unilateral Precision Strike Doctrine" کے تحت پاکستان پر مسلط کیا گیا، جس میں پاکستان کو اکثر "Strategic Consent" کے تحت محدود کردار دیا گیا۔
یہ کہنا کہ یہ حملے صرف پشتون علاقوں پر کیے گئے، جغرافیائی حقیقت کی بنیاد پر درست ہے کیونکہ یہی علاقے عسکریت پسندوں کی پناہ گاہیں سمجھے جاتے تھے، لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ ریاستی پالیسی پشتون دشمن تھی۔
کرنل امام، ضیاء الحق اور بعد ازاں مشرف کی افغان پالیسیوں پر تنقید بجا ہے۔ تاہم، جدید تحقیقی مطالعات، خصوصاً -Dr۔ Hassan Abbas (National Defense University، 2019) کے مطابق طالبان کا ابھار محض پاکستانی بیوروکریسی یا آئی ایس آئی کا منصوبہ نہیں بلکہ افغانستان کے اندرونی سیاسی خلا، نسلی تقسیم اور عالمی طاقتوں کی پراکسی جنگوں کا مشترکہ نتیجہ تھا۔
پاکستان نے 9/11 کے بعد امریکی اتحاد میں شمولیت اختیار کی، جس کے نتیجے میں اسے 80 ہزار سے زائد جانوں کا نقصان اور تقریباً 126 ارب ڈالر کی معاشی قیمت ادا کرنی پڑی (Economic Survey of Pakistan، 2022-23)۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان خود اس پراکسی بیانیے کا سب سے بڑا شکار بن گیا، نہ کہ فائدہ اٹھانے والا۔
پشتون قوم پرستی کی ایک تاریخی جڑ افغانستان میں"پشتونستان" تحریک سے جڑی ہے، جسے 1949ء کے بعد کابل نے سیاسی بنیادوں پر ہوا دی۔ پاکستان کے اندر پشتون شناخت کو دبا دیا گیا، یہ دعویٰ بھی مکمل سچ نہیں۔ Pakistan Bureau of Statistics (2023) کے مطابق پشتون آبادی ملک کے کل آبادی کا تقریباً 18 فیصد ہے، لیکن وفاقی و دفاعی اداروں میں ان کی نمائندگی 21 فیصد سے زیادہ ہے۔
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ریاستی ڈھانچے نے پشتون شناخت کو دبایا نہیں بلکہ اسے قومی دھارے میں جگہ دی۔ تاہم، ثقافتی احساسِ محرومی بدستور موجود ہے جو زیادہ تر تاریخی محرومیوں اور مقامی بدانتظامی کا نتیجہ ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجودہ تناؤ کو "پراکسی" کے عدسے سے دیکھنا محدود فہم ہے۔ جدید سیکیورٹی اسٹڈیز اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کا اصل چیلنج اب داخلی استحکام، معاشی توازن اور سرحدی گورننس ہے، نہ کہ پراکسیز کا استعمال۔
پشتون خطے کی ترقی اور افغانستان کے ساتھ متوازن تعلقات ہی اس خطے کے امن کا واحد پائیدار حل ہیں۔ جذباتی بیانیوں کے بجائے سائنسی تجزیے اور تاریخی بصیرت ہی وہ راستہ ہے جو پاکستان کو ایک متوازن اور باوقار خارجہ پالیسی کی طرف لے جا سکتا ہے۔

