Maroozat e Karbala (5)
معروضاتِ کربلا (5)
بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ جماعتیں اس موقع پہ یا بعد میں بنی اور آج یہی فرقوں کی شکل میں موجود ہیں۔ ایسا نہیں! الہی فیصلہ ہے کہ ایک حق ہے تو دوسرا باطل۔ اور یہ ازل کا تسلسل ہے۔ جو امام ع کے حامی تھے، وہ شیعانِ علی کہلائے۔ اور صلح امامِ حسن علیہ السلام کے بعد جس سال حضرت معاویہ تخت نشیں ہوئے، اس سال کو عام الجماعت کہا گیا۔ اسی مناسبت سے جماعت کا نام پڑا۔ رہی خوارج کی بات تو انکے دین سے خروج اور دار الخلافہ کے باہر مسکن بنا لینے کے بعد یہ اطراف میں پھیلے اور اپنے فرسودہ نظریات و عقائد کی ترویج کی اور بہت سے مسلمانوں کے ایمان کو متزلزل کیا۔
انکے عقائد میں واجبات کی ادائیگی پہ بہت زور دیا جاتا۔ ظاہری وضع قطع میں انکساری و عاجزی ہوتی۔ ہر وقت خدا کے تقرب کا حصول درس ہوتا۔ مگر ایسے تقرب کیسے مل جائے کہ جہاں امامِ وقت علیہ السلام کی معرفت ہی نہ ہو؟ کیونکہ فرمان نبوی ﷺ ہے 'من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتة جاھلیة' جبکہ ان میں بغضِ علی علیہ السلام زیادہ تھا۔ شہر کے باہر دورانِ مسکن انہوں نے ایک صحابی ؓ کو گرفتار کیا اور کہا کہ 'علی پر سب و شتم کرو' انہوں نے انکار کیا جس پر انہیں اور انکی زوجہ محترمہ کو شہید کردیا گیا اور انکی زوجہ کے بطن میں موجود بچے کو بھی نیزے سے مارا گیا۔
انکی نظر میں امام علی علیہ السلام کا خون مباح تھا، حتیٰ کہ انکے نزدیک نعوز بااللہ امام علیہ السلام کافر تھے۔ نہروان میں بچنے والے نو افراد میں سے تین نے کعبہ میں عہد و پیمان باندھا کہ ایک شام جاکر حضرت معاویہ کو قتل کرے گا اور دوسرا مصر جاکر عمرو بن عاص کو اور تیسرا کوفہ جاکر امام علی علیہ السلام کے خون سے ہاتھ رنگے گا۔ عبدالرحمان ابن ملجم ملعون کوفہ آیا اور کافی انتظار کے بعد انیس رمضان کی شب کو ضربت ماری۔ انیس رمضان کا انتخاب اس لئے کیا گیا کہ انکے عقائد میں وضع قطع اور ظاہری دین داری تھی اور چونکہ انیس کی شب مبارک رات تھی تو اس لئے حملہ آور ہوا۔ امام علیہ السلام کے سامنے جب ابنِ ملجم کو پیش کیا گیا تو آپ ع نے فرمایا "کیا میں تیرا اچھا امام نہ تھا؟"
امام علیہ السلام کیسے امام تھے؟ پچیس سال مسلمانوں کو تفرقے اور امت کا شیرازہ جوڑے رکھنے کیلئے اپنا حق چھن جانے پر بھی خاموش رہے۔ اور اب جبکہ شہید ہونے کو ہیں تو کیا فرماتے ہیں؟ شہید مرتضی مطہری ؒ اپنی کتاب سیرت آلِ محمد ﷺ میں رقم کرتے ہیں کہ "اس وقت ماحول میں عجیب و غریب کشیدگی پائی جاتی تھی۔ لوگوں کے جزبات میں شعلے لپک رہے تھے۔ ایک طرف معاویہ اور اس کے کارندے موجود تھے تو دوسرے طرف خشک مقدس نما ملاؤں کا گروہ موجود تھا، ان دونوں گروپوں میں تضاد پایا جاتا تھا۔ آپ نے اپنے اصحاب اور جانثاروں سے فرمایا کہ 'لا تقتلو الخوارج بعدی' کہ ان خوارج کو میرے بعد قتل نہ کرنا، انہوں نے مجھے تو مار ڈالا ہے تم انکو نہ مارنا۔ اگر آپ لوگوں کو خوارج کا قتلِ عام کیا تو یہ بات شامی امیر کے فائدے میں جائے گی۔ اس سے کسی لحاظ سے بھی حق کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا"
آپ ع نے نہج البلاغہ میں ارشاد فرمایا: "لا تقتلو الخوارج من بعدی فلیس من طلب الحق فاخطان کمن طلب الباطل فادر کہ" (میرے بعد خوارج کو قتل نہ کرنا اس لئے کہ جو حق کا طالب ہو اور اسے نہ پا سکے وہ ایسا نہیں ہے کہ جو باطل ہی کی طلب میں ہو اور پھر اسے بھی پالے)
مفتی جعفر حسین مرحوم رقمطراز کرتے ہیں کہ 'قتلِ خوارج سے روکنے کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ امیر المومنین علیہ السلام کی نگاہیں دیکھ رہیں تھیں کہ آپ کے بعد تسلط و اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہوگا جو جہاد کے موقعہ و محل سے بےخبر ہوں گے اور صرف اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کیلئے تلواریں چلائینگے گے اور یہ وہی لوگ تھے کہ جو امیر المومنین علیہ السلام کو برا سمجھتے اور برا کہنے میں خوارج سے بھی بڑھے ہوئے چڑھے ہوئے تھے!'
قتلِ امام علی ع پر ایک خارجی کے دو شعر پیش ہیں:
یا ضربة من تقی ما ارادبھا
الا لیبلغ من ذی العرش رضوانا
"یعنی اس پرہیز گار ابن ملجم (نعوز باللہ) کی ضربت کا کیا کہنا کہ اس کا مطمع نظر رضائے الہی کےسوا کچھ نہ تھا، پھر کہتا ہے کہ اگر تمام لوگوں کے اعمال ایک ترازو میں رکھے جائیں اور ابنِ ملجم کی ایک ضربت ایک ترازو میں رکھی جائے تو اس وقت آ دیکھیں گے کہ پوری انسانیت میں ابن ملجم سے اچھا کام کسی نے نہیں کیا ہوگا"
دوسری طرف شامی گروہ یا شامی پروپیگنڈہ مشینری کا یہ زور تھا کہ جب شام میں خبر پہنچی کہ امام علی ع مسجد میں ضربت لگنے سے شہید ہوگئے تو لوگ استفسار کرتے کہ علی اور مسجد میں؟ کیا علی ع نماز بھی پڑھتے تھے؟ کیا وہ مسلمان تھے؟ أَسْتَغْفِرُ اللّٰه!!! ساتھ شام والوں کے عقائد یہ تھے کہ بدھ کے دن کو نمازِ جمعہ پڑھائی گئی۔ نیز فجر کی باجماعت نماز میں شراب کے شے میں دو کی جگہ چار رکعتیں نماز پڑھا دی گئی۔ برسرِ ممبر امام علی علیہ السلام پر سب و شتم کیا جاتا۔ اور جو نہ کرتا اسے سخت ترین سزائیں دی جاتیں۔ اسی ذیل میں صحابی رسول حضرت حجر بن عدی ؓ کی شھادت واقع ہوئی۔ تحریف کا سلسلہ یہ رحلتِ رسول ﷺ کے بعد ہی شروع ہوئی کہ جن کا تزکرہ صحیح بخاری و مسلم میں بھی ہے اور یہ تابعین سے پہلے کی باتیں ہیں اور جب امام علی علیہ السلام جب ظاہری طور پر مسندِ خلافت پر پچیس سال بعد خلیفہ بنے اور اپنی امامت میں نماز پڑھوائی تو پیچھے سے ایک صحابیِ رسول ﷺ بول اٹھے کہ آج آپ ع نے پیغمبرِ خدا کی نماز یاد دلا دی۔ جب دین میں اتنی تیزی و شدت سے تحریفات داخل ہورہی تھیں تو قیامِ حسین علیہ السلام کا فلسفہ اتنا مشکل نہیں۔ نہ ہی بیعت کا فلسفہ اتنا مبہم ہے۔
جاری