Maroozat e Karbala (4)
معروضاتِ کربلا (4)
قتلِ عثمان کے پیچھے بہت سی جہتیں موجود تھی ہیں اب بھی ہیں۔ قتلِ عثمان کے وقت ایک ان کے حامی تھے ایک مخالف، تو کچھ ڈپلومیٹک روش اختیار کئے ہوئے تھے۔ ایسے میں مخالفین کی بھی یہ کوشش تھی کہ امام علی ع انکا ساتھ دیں اور قتلِ عثمان میں شریک ہوں پر جنابِ امیر ع یہ باریک بینی سے جانتے تھے کہ قتلِ عثمان سے امت آفات کا شکار ہوجائے گی، دشمنانِ اسلام خواہ بیرونی ہوں یا اندرونی اس پر فسادات و مصائب لے کر ٹوٹ پڑیں گے۔ جنابِ امیر ع نے حضرت عثمان کی بھی توجہ دلائی کہ انکے قتل میں کوئی بھی "سازشی" ملوث ہوکر امت کو آپس میں انتشار اور تفرقہ میں مبتلا کردے گا۔ اور ہوا بھی یہی۔
اصحاب کی وہ گروپنگ جو ثقیفہ کے اجلاس کے وقت ہوئی، اب کھل کر آشکار ہوگئی۔ جیسا کہ ایک شبہ تھا کہ سازشی عناصر بھرپور فائدہ اٹھائینگے اور وہ اب اٹھا بھی رہے تھے۔ قتلِ عثمان کت بعد انکا خون آلود کرتا شام لے جایا گیا، زوجہ عثمان حضرت نائلہ کی کٹی ہوئی انگلیاں ممبر پہ لٹکائی گئی اور شامی لوگوں کے جزبات کو خوب بھڑکایا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے لشکر جمع ہونے لگے۔
قبل شامیوں کے، امام علی ع کیلئے پہلا فتنہ جمل کی صورت میں بپا ہوا۔ اس کے محرکات میں، اس کو دوام بخشنے میں حضرت طلحہ و زبیر پیش پیش تھے اور قیادت میں حضرتِ عائشہ تھیں۔ آخر طلحہ و زبیر کو کیا نوبت پیش آئی کہ امام کے مقابل آئے؟ جبکہ شوریٰ میں جنابِ زبیر حضرت امیر ع کے حامی تھے؟ دراصل گزشتہ پچیس سالہ اقتدار کا دور Classification پہ مبنی تھی، یعنی کچھ ایسے اصول رائج تھے کہ جو امام ع نے قبول نہ کئے اور ختم کردیئے۔ ان میں مراعات دینا، چاپلوسی کرنے والے ٹولے کو خوش کرنا، یا کسی گروپ کی تقلید میں چلنا، انکے اثر و رسوخ کے سائے میں رہنا۔ امام علی ع کی شھادت کے متعلق بھی یہی مشہور ہے کہ آپ علیہ السلام شدتِ عدل کی وجہ سے قتل کردیئے گئے۔
جمل کے بعد فورا شام سے لشکر جنگ کو لپک پڑے، جنکا نعرہ یا ثارت العثمان تھا، یعنی خونِ عثمان کا انتقام! اس سازشی ٹولے کے بہتانوں میں بڑا بہتان قتلِ عثمان کا ذمہ دار امام علی علیہ السلام کو ٹھہرانا تھا۔ اور انہوں نے جنگ کی آگ خوب بھڑکائی۔ یہ معرکہ جنگِ صفین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ قریب ہی تھا کہ یہ شکست کھا جاتے، انہوں نے مکارانہ چال چلی اور نیزوں پہ قرآن بلند کردیئے۔ اب خود جنابِ امیر ع کے لشکر میں کھلبلی مچی اور لشکر تقسیم ہوگیا۔ اس علحیدگی کی ایک بڑی وجہ وہ سپاہ تھی جو بیعت کو روایتی و شورائی طرز پر انجام دے چکی تھے، یعنی ایک تسلسل کے ضمن میں۔ نا کہ امام ع کو منصوص من اللہ مان کر۔
اس موقع پر چار بڑے گروہ وجود میں آئے، حامیانِ علی ع، حامیانِ معاویہ، ایک وہ جو غیر جانب دار ہوگئے اور دوسرے وہ جو ان دونوں لشکروں بشمول علی و معاویہ کو واجب القتل گردانتے تھے کہ انکے باعث فتنہ و فساد اور قتل و غارت ہے۔ ان گروہوں کے ماخذ وہی پرانے ہیں جو ثقیفہ کے وقت تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جن اصحاب نے مولا علی علیہ السلام کے گھر میں پناہ لی تھی، ان میں سے اکثر و بیشتر آپ ع کی رکاب میں لڑتے رہے۔
قرآن نیزوں پر آنے کے بعد خلیفہ بلا فصل امام علی علیہ السلام کا لشکر تقسیم ہوا اور بیس ہزار افراد آپ کی جان کے درپے ہوگئے، مجبورا آپ ع کو جنگ روکنا پڑی ورنہ آپ ع کے سپاہ سالار حضرت مالک بن اشتر ؒ فساد کے خیمے سے چند قدم دور تھے، اور تنابیں کاٹ ڈالیں تھیں۔ اس مسئلے کہ بعد مسئلہ تحکیم پیش آیا اور اس ضمن میں گروہ در گروہ مزید تقسیم ہوئی۔ اس سب کے بعد وہ گروہ جو خوارج کہلاتا ہے، انہوں نے پریشانیاں بڑھانی شروع کردیں اور دار الخلافہ سے باہر مسکن بنا کر رہنے لگے اور امت کیلئے وبالِ جان بننے لگ گئے۔ آپ ع نے ہر ممکن کوشش کی کہ یہ سمجھ جائیں پر چند ایک کے علاوہ سب ہٹ دھرمی پر رہے۔ پھر آپ ع نے علمِ جھاد بلند کرتے ہوئے میدان میں قدم رکھے اور اس وقت رکے جب پورے لشکر کا صفایا ہوگیا، سوائے ان نو آدمیوں کہ جو بھاگ نکلے۔
جاری۔۔