Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hasnain Haider/
  4. Maroozat e Karbala (1)

Maroozat e Karbala (1)

معروضاتِ کربلا (1)

رسول اللہ ﷺ کی ذات دینِ الہیہ لے کر مبعوث ہوئی اور آپ ﷺ نے انسانی زندگی کے ہر شعبے کیلئے ایک سیٹ اپ تشکیل دیا، ایک نظام تشکیل دیا، طریقہ کار وضع کیا۔ یہ نظام کوئی نیا نہیں تھا بلکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا کرام علیہم السلام بھی الہیہ تعلیمات لے کر آئے پر ہر زمانے میں مختلف تقاضوں کے تحت، معاشروں کی ضروریات کے مطابق احکامات یا نظام ہوتا، کیونکہ 'ان دین عند اللہ الاسلام' کہ خدا کے نزدیک دین فقط اسلام ہے۔

خدا کے نزدیک دین فقط اسلام ہے تو باقی ادیان کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ باقی تمام ادیان اسلام سے انحراف کا نام ہے۔ اسلام حجتِ خدا ہے۔ جب لوگوں نے اسلام سے روگردانی کی، جب الہیہ اصول و ضوابط سے رخ موڑا تو کوئی آگ کو پوجنے لگ گیا تو کوئی آفتاب و قمر کو! کسی نے عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہا تو کسی نے انہیں کو خدا تک مان لیا۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ نوبت یہاں تک کیوں پہنچی؟ اس کیلئے جنابِ عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کا مشاہدہ یا ان پر تجزیہ ضروری ہے البتہ بندے کی تحقیق میں انکے اصل جانشیں کی بجائے کچھ ایسے لوگ آئے جو درِ پردہ باطل تھے، مگر تھے حواری، مشہور نام سینٹ پال کا ہے۔

اسلام کی تکمیل کی مہر غدیر ہے۔ غدیر کیا ہے؟ جب رسولِ اکرم ﷺ معاشرے کی تشکیل کے مراحل سے گزر کر، ایک ریاست کا قیام عمل میں لاتے ہیں، اسلامی حدود و قیود متعین فرماتے ہیں، وظیفہ رسالت ادا کرتے ہیں تو آپ ﷺ کو آگاہ کردیا جاتا ہے کہ اب آپ کا فریضہ پورا ہوا۔ مگر ایک کام آپ کے زمہ باقی ہے جسے کہ ادا کرنا ہے، ورنہ حقِ رسالت گویا ادا ہی نہیں ہوا۔ المختصر، رسول اللہ ﷺ اعلانِ حج کراتے ہیں اور سوا لاکھ سے زائد مسلمان آپ ﷺ کی رہنمائی میں حجِ بیت اللہ ادا کرتے ہیں۔

چونکہ رسالت تمام ہوچکی تھی، اب ریاستِ اسلامی کو چلانے کیلئے نائبِ رسول ﷺ کا ہونا ضروری تھا تو پس آپ ﷺ حج کے مختلف مراحل میں امام علی علیہ السلام کی مدحہ سرائی کرتے ہوئے لوگوں کو اپنے بعد کے رہنما کی درست معرفت کرواتے نظر آئے۔ حج کے بعد واپسی پہ ایک مقام ایسا بھی آیا کہ جہاں سب نے جدا ہونا تھا، رسول اللہ ﷺ سب کو رکوایا، جو آگے پیچھے تھے، انہیں اس مقام پر جمع کروایا۔

اس موقع محسنِ انسانیت ﷺ نے حق جتاتے ہوئے فرمایا کہ کیا میں تمہارے نفسوں پر مقدم نہیں؟ سب نے یک زبان جواب دیا کہ آپ ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ "من کنت مولا فھذا علی مولا" کہ جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کا علی مولا۔ یعنی اب امت کی سالاری میرے بعد علی ع کے ہاتھ میں ہے۔ جیسا کہ فرمانِ نبوی ص ہے کہ 'اے علی ع تجھے مجھ سے وہی نسبت ہے جو موسیٰ ص کو ہارون ص سے تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔'

بعض لوگ مولا کا معنی دوست کے مطلب میں کرتے ہیں۔ روایات میں درج ہے کہ صحابہ بخ بخ کرتے مولا علی ع کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اب سے آپ ہمارے اور تمام مسلمین کے مولا ہیں۔ ایک نکتہ بخ بخ کا مطلب مبارک نہیں، عربی میں مبارک کیلئے مبروک جیسے الفاظ رائج ہیں جبکہ بخ بخ کا معنی واہ واہ ہے۔ جملے کا سینس بتلا رہا کہ مولا کا اصحاب کے نزدیک کیا معنی تھا؟ آج سے ہمارے اور تمام مسلمین کے مولا یعنی دوست؟ کیا پہلے نہیں تھے؟

غدیر میں اپنے تین روزہ قیام میں رسول اللہ ﷺ خیمہ نسب کرواتے ہیں اور تین دن تک امام علی علیہ السلام کو ساتھ بِٹھا کر اصحاب سے مولا علی علیہ السلام کی بیعت لیتے ہیں۔ غالبا تیسرے روز ابنِ فہری داخل ہوتا ہے اور تکرار کرتے ہوئے گویا ہوتا ہے کہ آیا یہ خدا کا حکم ہے یا آپ اپنی طرف سے علی ع کو ہمارا حاکم و ولی بنا رہے؟ رسول اللہ ص نے فرمایا کہ یہ خدا کا حکم ہے۔ یہ کہتے ہوئے باہر نکلتا ہے کہ اگر خدا کا حکم ہے تو مجھ پر خدا آسمان سے عذاب نازل فرمائے۔ کچھ دور ہی ہی ہوتا ہے کہ آسمان سے پتھر نازل ہوتا ہے اور ابنِ فہری وہیں ہلاک ہوجاتا ہے۔

ابنِ فہری کے متعلق ہمیں کیا عبرت یا کیا نکتہ میسر آتا ہے؟ ابنِ فہری کوئی فردِ واحد نہیں! یہ ایک پوری تنظیم کی نمائندگی کا نام ہے جو خفیہ طور پر تیار ہوچکی تھی۔ جس کے دل میں بغضِ علی تھا۔ جن کے دلوں میں زرا بھر بھی مودت نہ تھی۔ یوں یہ رسول اکرم ص سے پوچھنے اجرِ رسالت آئے تھے!

جاری

Check Also

ADHD

By Khateeb Ahmad