Israel Par Irani Hamla Aur Taqat Ka Tawazun
اسرائیل پر ایرانی حملہ اور طاقت کا توازن
گزشتہ رات (14 اپریل) کو ایران نے صیہونی قابض و غاصب حکومت پہ دنیا کا سب سے بڑا ڈرون حملہ کیا۔ صیہونی رپورٹس کے مطابق یہ کُل 726 حملے تھے۔ اور ڈرونز اور میزائلوں کی تین سے چار لیئرز تھیں۔ خطے کی طاقتوں کے تناظر میں یہ ایک مضبوط اور قوت کا حملہ تھا۔ اور یہ حملہ ناگزیر ہوچکا تھا۔ آج یا کل دمشق میں سفارتخانے پر اسرائیلی حملے کے بعد ایران کا جواب آنا ہی تھا۔ گزشتہ رات اس حملے کی ٹائمنگ مزید بہترین تھا۔ زیادہ دیر ہوتی تو اعصاب کی اس لڑائی میں ایران اپنے بچھائے گئے جال میں کہیں غلطی کر جاتا۔
اگرچہ اسرائیل نے خطے کے بڑے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات نارملائز اور اچھی فوجی قوتوں کو کمزور کردیا ہے جیسا کہ عراق و شام میں داعش کے زریعے، لیبیا و یمن کو عرب سپرنگ کے زریعے کمزور کردیا۔ اس اثنا میں اسرائیل کے خلاف کوئی عرب قوت باقی نہ رہی تھی۔ لیکن ایران نے خطے میں غیور عربوں کی جماعت سازی کی اور انکو مضبوط کیا تاہم ان عسکری جماعتوں نے داعش سمیت خطے میں امریکہ و اسرائیل کے مفادات کو شدید نقصان پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ سات اکتوبر سے لے کر گزشتہ رات تک اور پھر گزشتہ رات ایران کے حملے کے بعد شام و عراق اور لبنان و یمن سے بھی بھرپور انداز میں اسرائیل پر میزائلوں اور راکٹوں سے شدید حملے کئے گئے۔ اسرائیل کا دفاعی نظام آئرن ڈوم مفلوج کرکے رکھ دیا۔
امریکہ نے عرب ریاستوں سمیت چین سے بھی مدد طلب کی کہ وہ ایران کو اسرائیل پر حملہ کرنے سے روکیں۔ اسکا جواب ایران نے ایسے دیا کہ ہمارے جواب میں اگر کسی نے بھی یعنی بذاتِ خود امریکہ یا خطے کی کسی طاقت نے ٹانگ اڑائی تو اُن ممالک میں موجود امریکہ کی ملٹری بیسز سمیت اُس ملک کو بھی اسرائیل کے ساتھ نشانے پر رکھ لیں گے۔
ایران کے حملے پر روس کے صدر پیوٹن نے ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایرانی حملے کے جواب میں امریکہ نے ایران پر حملہ کیا تو ہم اسے تیسری عالمی جنگ قرار دیتے ہوئے چین و شمالی کوریا کے ساتھ مل کر ایران کا ساتھ دیتے ہوئے اسرائیل و امریکہ اور برطانیہ کے خلاف جنگ چھیڑ دیں گے۔
دوسری طرف اسرائیل جوابی کارروائی کے متعلق سوچ رہا ہے۔ البتہ امریکی صدر جو بائڈن نے صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو سے بات کرتے ہوئے ایرانی حملے کے جواب میں مزید کارروائی کرنے سے باز رہنے کا کہا ہے۔ شنید یہ بھی ہے کہ امریکی صدر اور صیہونی وزیراعظم میں اس حوالے سے تلخ کلامی بھی ہوئی ہے۔ خطے کے عرب ممالک اس موقع پر خاموش ہیں اور امریکہ کو اپنی سرزمین ایران کے خلاف استعمال نہیں کرنے دے رہے ہیں۔
پورا نیٹو اتحاد بھی اگر ایران کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو تو ایران اتنی صلاحیت و قوت رکھتا ہے کہ تنِ تنہا مقابلہ کر سکے۔ کیونکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق نیٹو افواج کی تعداد ساٹھ لاکھ ہے جبکہ ایران کی مشرقِ وسطیٰ میں 30 سے زائد پراکسیز ہیں جنکی فوجی تعداد پینتیس سے چالیس لاکھ ہے۔
اسرائیل اس وقت سفارتی، تجارتی، سیاسی و سماجی بحرانوں کا شکار ہے۔ عسکری طور پر اس جنگ میں اپنے اہداف حاصل ہی نہیں کر پایا ہے۔ اس فرسٹریشن کا اظہار غزہ کے 36 ہزار عام شہریوں بالخصوص بچوں اور خواتین کو قتل کرنے سے ظاہر کر رہا ہے۔ تجارتی بندرگاہیں وآبی گزرگاہیں مکمل مفلوج ہوچکی ہیں۔ ہر ہفتے صیہونی عوام موجودہ قابض حکومت کے خلاف سڑکوں پر باہر نکل آتی ہے۔ ایسے میں اسرائیل کا مزید جنگ جاری رکھنا خود اسرائیل کے وجود کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ کیونکہ اسرائیل اب اس پوزیشن میں ہے ہی نہیں کہ جنگ کو پھیلائے۔ ایسا کرنا اسرائیل کیلئے اپنی موت آپ مرنے کے مترادف ہوگا۔