Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hasnain Haider
  4. Hum Sub Nasir Hain

Hum Sub Nasir Hain

ہم سب ناصر ہیں

جب سے عالمِ دنیا میں بنی نوع انسان کی نقل مکانی ہوئی ہے، حق کی ضد میں باطل بھی اسکے ساتھ چلا آیا ہے۔ یہ باطل کا اعلان ہے کہ وہ ہمیشہ حق کو متزلزل کرنے کی کوشش کرے گا، ڈی ٹریک (Detrack) کرنے کی کوشش کرے گا۔ کبھی باطل نے کھل کر حق کے خلاف شرارت کی تو کبھی مخلوط رنگ و بو اور لبادے میں۔ اسی لئے تواقبال نے کہا کہ:

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا اِمروز،

چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی!

یہی وہ چراغ تھا جو بو لہبیوں نے کربلا میں نعرہِ تکبیر اور مصطفوی ص رنگ میں بھنگ کردیا، چراغ بُجھا دیا۔

امامِ عالی مقام علیہ سلام کے اعوان و انصار شہید کردیئے گئے۔ مولا حُسین علیہ سلام پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ ایک وقت تھا کہ مولاؑ تنہا رہ گئے۔ ہر طرف سے تیروں کی بارش، نیزوں اور بھالوں کے وار، تلواروں کی ضربیں مگر حق کا مصداق اور اپنی ذات میں بھی حق برسرِ قیام تھا، مضبوطی سے ڈٹ کر کھڑا تھا۔ ایک وقت آیا کہ حق نے صدا لگائی، ھل من ناصرٍ ینصرنا۔۔۔ یہ وہ موقع تھا جب ناصرینِ مولا ؑ شہید ہوچکے تھے اور معرکہِ حق و باطل میں کوئی نصرت کرنے والا نہ تھا۔

یہ بھی اتمامِ الہی ہی ہے کہ جس کا کوئی نا ناصر رہا تھا، اس کیلئے خدا نے ایک قوم پیدا کردی۔ زمانے بدلتے رہے، یہ قوم لاشیں دیتی رہی، گلے کٹواتی رہی مگر ھل من کی صدا پہ لبیک کہتی رہی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، کاروانِ کربلا بڑھتا رہا۔ سلسلہ بیسیویں صدی کی جدید دنیا میں منتقل ہوا۔ زمانے کے پِیچ و خَم کے حساب سے ہی ناصرین کا قیام عمل میں آیا۔

یہ ناصرین امامیئن کہلائے۔ ان میں اہم نام ڈاکٹر محمد علی نقوی ؒ کا تھا جنہوں نے ان ناصرین کی 'تعلیم و تربیت' اور نظم و ضبط پر خصوصی کام کیا۔ ان میں ایک ایسا ناصر بھی تھا جو 'ناصر علی صفوی' کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ناصر علی صفوی واقعاً محاذِ حق کے ناصر تھے۔ آپ ؒ 5 جون 1965 کو ضلع چنیوٹ کے ایک گاؤں ٹھٹھہ محمد شاہ میں کے ایک دینی گھرانے میں جنم لیا۔ آپ بچپن سے ہی مونس و مہربان اور اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ آپ نے مولا علی ع کے فرمان کو خوب پڑھ اور سمجھ رکھا تھا کہ مظلوم کے حامی رہنا اور ظالم کے مخالف رہنا۔ آپ نے ہر جگہ، ہر موقع پہ مستکبرین و ظالمین کے خلاف علمِ جھاد بلند کیا۔

ہم اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ حق فتحیاب ہو

کہہ دو اُسے جو لشکرِ باطل کے ساتھ ہے!

آپ حق کی نصرت کیلئے ضوفشاں ستارے بن کر ابھرے۔ آپ نے اپنے مولا حسینؑ کی طرح مصائب و آلام کا سامنا کیا۔ مگر کبھی پیروں میں ی لغزش نہ آنے پائی۔ عالمی سامراج کے دنیا پر حکومت کے خواب کو آپ نے پاکستان میں ہمیشہ مٹی میں ملایا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ عالمی سامراج کو بھی کھٹکنے لگ گئے تھے۔ آپ کو رستے سے ہٹانے کیلئے سی آئی اے نے اپنی بدنامِ زمانہ فورس بلیک واٹر کی خدمات لیں اور آپ کو اپنے گھر میں 25 نومبر سن 2000 کو شہید کردیا۔ اس واقعے میں آپکی حاملہ زوجہ نے بھی آپ کا دفاع میں ساتھ دیتے ہوئے شھادت پائی۔

آپکی زوجہ آپ کیلئے سیدہ فاطمہ الزھرا سلام اللہ علیہا کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنا محسن بطن میں لئے شہید ہوئیں۔۔۔

باطل نے سمجھا کہ شاید اب معرکہ فتح کرلیا مگر اُنہیں کیا علم تھا کہ یہ ایک ناصر تھا، اسکے ہر خون کے قطرے سے کتنے ہی ناصر پیدا ہونگے۔ اور نصرتِ خدا، نصرتِ دین اور نصرتِ امام عج کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا، کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ

"وَ قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا﴿۸۱﴾

اور کہدیجئے: حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل کو تو یقینا مٹنا ہی تھا۔

حق کو بقا کا حق حاصل ہے کیونکہ حق کے عناصر فطری ہوتے ہیں۔ حق کا سرچشمہ صداقت ہے۔ حق کی بقا کے عوامل اس کے اپنے ذاتی ہوتے ہیں۔

جب کہ باطل کے عناصر غیر فطری ہوتے ہیں۔ اس کے عوامل بھی وقتی اور بیرونی ہوتے ہیں۔ اس لیے باطل خس و خاشاک کی مانند وقتی اچھل کود کرتا ہے:

کَذٰلِکَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡحَقَّ وَ الۡبَاطِلَ ۬ؕ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذۡہَبُ جُفَآءً ۚ وَ اَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ۔۔۔۔ (۱۳ رعد: ۱۷)

اس طرح اللہ حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے پھر جو جھاگ ہے وہ تو ناکارہ ہو کر ناپید ہو جاتا ہے اور جو چیز لوگوں کے فائدے کی ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔۔"

نصرتِ دین میں ناصرین کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا کہ 'ہم سب ناصر ہیں!'

Check Also

Mitti Ki Khushbu

By Asad Tahir Jappa