America, Russia Aur Ukraine, Taqat Ki Bisat Aur Be Reham Siasat
امریکہ، روس اور یوکرین: طاقت کی بساط اور بے رحم سیاست

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ بیان کہ "یوکرین اور روس کے درمیان زمینی تبادلوں کا فیصلہ کییف خود کرے گا" بظاہر ایک اصولی مؤقف دکھائی دیتا ہے، مگر درحقیقت یہ واشنگٹن کی جانب سے ذمہ داری سے جان چھڑانے کی ایک حکمتِ عملی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یوکرین واقعی آزادانہ طور پر کوئی فیصلہ کر سکتا ہے؟ یا وہ محض عالمی طاقتوں کے کھیل میں ایک مہرہ بن چکا ہے؟
یورپی ممالک یوکرین کے بڑے حمایتی کے طور پر سامنے آتے ہیں، لیکن ان کے اپنے معاشی اور توانائی کے مفادات انہیں امریکہ کے ساتھ ہم آہنگ رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ جرمنی، فرانس اور بالٹک ریاستیں روسی جارحیت پر شدید تحفظات رکھتی ہیں، مگر فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یوکرین کی اصل پالیسی سمت کا تعین براہِ راست واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان ہونے والی سودے بازی سے جڑا ہوا ہے۔
اگرچہ ٹرمپ نے پوٹن کے ساتھ تعلقات کو "باہمی احترام" پر مبنی قرار دیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کا اصل ہدف روس اور چین کے بڑھتے ہوئے تعاون میں دراڑ ڈالنا ہے۔ واشنگٹن جانتا ہے کہ ماسکو عالمی دباؤ کا تنہا مقابلہ کرنے کے بجائے بیجنگ پر انحصار کرتا ہے۔ اس لیے امریکہ روس کے ساتھ براہِ راست بارگیننگ کے ذریعے چین کو تنہا کرنے کی کوشش کرے گا۔ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ روس اس وقت چین کو اپنی سب سے بڑی تزویراتی ضرورت سمجھتا ہے اور بیجنگ کے مفادات پر سودا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
یوکرین کے لیے یہ صورتحال انتہائی تلخ ہے۔ امریکہ نے فیصلہ کرنے کا اختیار "کییف پر چھوڑ" کر دراصل یوکرین کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔ یہ ایک طرح کی سیاسی توہین بھی ہے، کیونکہ یوکرین کی خودمختاری اب اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں بلکہ بڑی طاقتوں کے سودے بازی کے کھیل پر منحصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ پر تکیہ اکثر "ڈبو دیتا ہے"، افغانستان، شام اور عراق کی مثالیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں۔
اس تمام تر منظرنامے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بین الاقوامی سیاست بے رحم ہے۔ یہاں اصول اور اخلاقیات سے زیادہ اہمیت طاقت، مفادات اور سودے بازی کو حاصل ہے۔ یوکرین فی الوقت ایک ایسی بساط پر مہرہ ہے جس پر اصل کھیل امریکہ، روس اور چین کے درمیان جاری ہے۔
امریکہ اور روس کے تعلقات میں نرمی کا براہِ راست اثر جنوبی ایشیا پر بھی پڑ سکتا ہے۔ اگر واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان تعاون بڑھتا ہے تو پاکستان کے لیے ایک نئی سفارتی بساط کھل سکتی ہے۔ پاکستان ماضی میں روس کے ساتھ توانائی اور دفاعی معاہدوں میں دلچسپی رکھتا رہا ہے، لیکن امریکہ اور بھارت کی قربت ہمیشہ ایک رکاوٹ بنی رہی۔ اب اگر روس اور امریکہ کسی حد تک ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تو پاکستان کو بھی اپنے تعلقات میں توازن پیدا کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔
البتہ بھارت، جو امریکہ کا اسٹریٹجک پارٹنر ہے، اس بدلتی صورتحال کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس پس منظر میں پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ نہ صرف امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن قائم رکھے بلکہ روس اور چین کے ساتھ بھی اپنے اسٹریٹجک روابط مضبوط کرے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ یوکرین جنگ کے تناظر میں امریکہ-روس تعلقات کا نرم پڑنا صرف یورپ ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے لیے بھی ایک نیا سفارتی باب کھول سکتا ہے اور پاکستان کے لیے موقع بھی، چیلنج بھی۔

