Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hasnain Haider/
  4. Agar Saraikistan Banta Hai To

Agar Saraikistan Banta Hai To

اگر سرائیکستان بنتا ہے تو

پاکستان کو بنے 74 سال ہوچکے ہیں۔ پاکستان کی بنیاد نظریاتی افکار پر قائم ہے۔ مطالعہِ پاکستان کی رو سے ہمیں یہ باور کروانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ مذہبی بنیادوں پر دوقومی نظریہ معنی رکھتا ہے اور واقعی ایسا ہے۔ مگر پاکستان میں مختلف ذاتیں موجود ہیں جو بعض مشترکات کی بنا پر ایک قوم بنتی ہیں۔ جیسا کہ لسانیت، ثقافت اور ایک خاص جغرافیہ۔

پاکستان کی بذاتِ خود ایک مجموعی قومی پہچان ہے، جس میں اسکا تہذیب و تمدن اور ثقافت و زبان شامل ہے۔ مگر پاکستان میں ایسی کئی قومیں اور انکی ثقافتیں و زبانیں موجود ہیں جن کا وجود خود قیامِ پاکستان اور تخلیقِ اردو سے بھی کئی صدیوں پہلے کا ہے۔

پاکستان میں اس وقت Major نوعیت کی پانچ سے سات اقوام آباد ہیں جن کی ایک خاص زبان، ثقافت، قومی ورثہ اور تہذیب و تمدن ہے۔ ان میں پنجابی، بلوچی، پشتون، سندھی، بلتی، ہزارہ، اور سرائیکی شامل ہیں۔ ہر قوم کے پاس مخصوص علاقہ ضرور ہے کہ جہاں وہ اپنی ثقافت، تہذیب و تمدن اور انتظامی امور کا احیا کئے ہوئے ہیں۔ اور یہی وہ وجہ ہے کہ جس سے انکی قوم کی ہر حوالے سے ترقی کا باعث ہے۔

اس وقت جو قوم برسرِ تحرک ہے، وہ سرائیکی قوم ہے۔ سرائیکی قوم کا استحصال کوئی ڈھکا چھپا نہیں۔ سرائیکی قوم کوئی بیس پچیس روپے کے چنے ہیں کہ مٹھی بھر ہیں بلکہ یہ چھ کروڑ نفوس پر مشتمل قوم ہے جس کا زمینی احاطہ ٹانک سے لے کر بہاولپور تک ہے۔ پنجاب کے چھتیس میں سے چوبیس اضلاع میں تو اکثریت کے ساتھ سرائیکی آباد ہیں۔

سرائیکی قوم کو اپنی ہر طرح کی بقا خواہ ثقافتی ہو یا تہذیبی کیلئے ایک صوبائی نوعیت کی خودمختاری چاہئے جہاں وہ اپنی قوم، علاقے اور آنے والی نسل کے مستقبل کے فیصلے خود کرسکیں۔ جہاں روزگار، تعلیم، صحت و صنعت کے شعبے قائم کئے جائیں اور ایک جدید انفراسٹریکچر قائم ہو۔ مگر افسوس تو یہ ہے کہ ٹی وی پر بیٹھ کر ہائی پروفائل شخصیات یہ کہتی ہوئی ملتی ہیں کہ سرائیکی قوم مزدوری کے نام پر بالائی شہروں میں بھیک مانگنے آتے ہیں۔ شکر کریں، کسی کی زمینوں پر کسی بھی حوالے سے قبضہ نہیں کرتے۔ بجائے کسی کا حق کھانے کے، بیلچہ و کَسی اٹھا کر مزدوری کرکے عزت کی روزی روٹی کما کر کھاتے ہیں۔

سرائیکی تہذیب میں بھی بلوچ و پشتون تہذیبوں کی طرح پنچائیت کا کلچر ہے۔ انتظامی حوالے سے سرائیکی ریاست کے وفادار اور خریدے ہوئے محبینِ وطن سے زیادہ ریاست کیلئے سنجیدہ ہیں۔ ماضی کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں کہ بلوچستان میں چند بلوچ سردار ناراض ہوئے تو پشتونوں کے بعض قبائل۔۔۔ سرائیکی اگرچہ فلحال اپنے مؤ قف پر دفاعی سیاست کررہے جوکہ متاثر کن نہیں مگر انکی متشدد سیاست کرتے دھرتوں کیلئے بڑے المیے کا باعث ہوگی۔

دوسری طرف سرائیکی سیاست دانوں کو بھی چاہئے کہ پینتیس چالیس سال سے سیاست میں رہنے والی پارٹیز کو اپنا گاڈ فادر ماننے کی بجائے اپنی ایک متحدہ جماعت ایک مجموعی منشور کے ساتھ وسیب میں اتاریں جو سرائیکی صوبے کا ریفرنڈم ثابت ہو۔ بڑی جماعتیں ہماری ضمانت نہیں۔ ہمیشہ سے سرائیکی وسیب بڑے الیکشن کیلئے اندرونِ خانہ ڈیلز کا نشانہ رہا ہے۔ سارے کا سارا ووٹ بنک یہیں سے پُر ہوتا ہے جسکی بڑی مثال 2018 کا الیکشن اور تحریکِ انصاف کا وسیب میں کلین سویپ کرنا ہے۔

وسیب کا سینٹرل پوائنٹ ملتان ہے اور جغرافیائی سٹریٹجی سے ملتان کو وسیب کا مرکز ہونا چاہئے۔ وسیب واسیوں کو سمجھنا چاہئے کہ کوئی بھی جماعت کسی بھی قوم کے متعارف کروانے سے وجود میں آتی ہے نہ کہ کوئی جماعت کسی قوم کو تعارف بخشتی ہے۔ اس لئے سرائیکی قوم و وسیب ایک قلعہ ہے جس میں اکثر لوگ اپنے فائدوں کے حصول کیلئے صف بندی و مورچہ بندی کرتے نظر آتے ہیں۔

صوبہ سرائیکستان کا مطالبہ ایک آئینی و قانونی اور سب سے بڑھ کر فطری مطالبہ ہے۔ اگرچہ سیکٹریٹ کے نام پر سرائیکی قوم کے حق میں قدغن لگایا جا رہا ہے مگر اسکے حصول کے ساتھ ہی سرائیکی لیڈران اور وسیب واسی دو قدم آگے بڑھتے ہوئے اپنا باقی ماندہ حق بھی حاصل کریں۔ اگر لسانی عنوان سے متعصب ذہنوں کو تعصب کی بو آتی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، انتظامی نوعیت پر کسی بھی نام سے ہمیں ہمارا حق دیں۔ یہ بعد میں ہمارا ذاتی مسئلہ ہوگا کہ ہم اپنے انتظامات کس نام و عنوان سے چلاتے ہیں۔

انتظامات چلانے کیلئے سرائیکی قوم میں ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلا، صحافی، بیوروکریٹس، نیز انسانی زندگی کےبہر شعبے کے متعلقین موجود ہیں۔ انٹرا سٹیٹ بہترین روٹس ہیں۔ ہمارا وسیب چاروں صوبوں کا سنگم ہے۔ دریائے سندھ کے رستے سکھر تا ڈیرہ و اٹک بہترین تجارت راہداری جوکہ نہایت سستی ثابت ہوگی، پسماندہ اضلاع کیلئے دریائی راستوں پر نجی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔ ملک میں سماجی مصرروف ہلچل نظر آئے گی، اگر سرائیکستان بنتا ہے تو!

Check Also

Pyara Herry

By Saira Kanwal