Waldain Ki Tarbiyat
والدین کی تربیت
بچوں پہ لکھنا اور بچوں کے لیے لکھنا دو الگ موضوعات ہیں۔ ادب جس معاشرے کی پیداوار ہے اور جن لوگوں کے ہاتھوں بگڑ سنور کر آج حتمی صورت میں کتابوں میں لکھا اور پڑھا جا رہا ہے وہاں بچوں پہ لکھنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ اس لکھے کو لوگ "انوکھے فلسفے" کا نام دے کر نظر انداز کر دیتے ہیں نہ اسے سمجھتے ہیں اور نہ ہی اسے عملی زندگی میں شامل کرنے پہ راغب ہوتے ہیں۔ بچوں کے لیے لکھنے والوں کا پوچھو تو دس نام بتائیں گے۔۔ "فلاں بچوں کا ادبی ہیرو ہے، فلاں کے جاسوسی ناول بچوں کے من پسند ہیں، اس کو پڑھو کیا مذہب پہ لکھتی ہے بچوں کی تو دین ودنیا سنوارنے کی خدمت کر رہی ہے"۔
پھر بچوں پہ کیوں لکھا جائے کیا یہ کہ۔۔
سوال: ان کی کیسے پرورش کرنی ہے؟
جواب: ارے بھئی یہ تو صدیوں سے ایک ہی نظام کے تحت ہوتا آ رہا ہے؟
سوال: بچے کو کھانا کیسے کھلانا ہے؟
جواب: ارے یہ بھی کیا کسی ماں کو سکھانے کی ضرورت ہے کہ اسے کس طرح اپنی اولاد کا پیٹ بھرنا ہے۔
سوال: بچے کی ضرورتیں کیا ہیں؟
جواب: یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں، باپ صبح سے رات تک ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دھکے کھاتا ہے اپنی خواہشات ترک کر کے ان کے لیے جان مارتا ہے۔
سوال: بچے کی ذہنی اور اخلاقی نشوونما کیسے کی جائے؟
جواب: ارے بھئی بچہ جس ماحول میں رہے گا وہ وہی کچھ سیکھے گا جو اس کے بڑے کرتے ہیں۔
اس طرح کے سوالات کسی سے بھی کریں سوال مکمل ہونے سے پہلے ایسے کئی جواب آپ کے منہ پہ مار دئیے جائیں گے۔
لیکن ہر بچہ فطرتاً دوسرے سے مختلف ہے سوچ، خیال، طور طریقہ کسی کا بھی ایک جیسا نہیں۔ پھر دو مختلف سوچ کے بچوں کی پرورش ایک ہی انداز میں کیوں؟ گھر کے بڑے بچے کو بسا اوقات اتنا پیار ملتا ہے کہ وہ ضدی بن جاتا ہے، کبھی وہی پیار اسے حساس بنا دیتا ہے اور کبھی گھر کے چھوٹے بچے پہ دی جانے بےحد توجہ اسے لاپرواہ بناتی ہے۔ تو کبھی عدم توجہی بچے کو باغی بنا دیتی ہے۔
ایسا کیا طریقہ اپنایا جائے کہ سب بچوں کو محبت اور توجہ بھی ملے اور ان کی سوچ و مزاج کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے۔
ہم جن خاندانوں میں پرورش پاتے ہیں وہاں لڑکا، لڑکی کی شادی کی سوچ تو کی جاتی ہے مگر کیا کبھی کسی والدین نے اپنے بیٹا یا بیٹی کی شادی کے وقت اسے یہ مشورہ دیا ہے کہ کل کو جب تم دونوں والدین بننے لگو تو ایسی ورکشاپس اٹینڈ کرو جہاں پہلے بچے کی پیدائش سے پہلے نوآموز والدین کو بچوں سے متعلق کچھ بینادی باتیں سمجھائی اور بتائی جاتی ہیں کہ بچوں کی پرورش اور تربیت کیسے کی جائے مضحکہ خیز عنصر یہ ہے کہ ہماری سوسائٹی میں دراصل ایسی ورکشاپس ہوتی ہی نہیں ہیں جہاں نوآموز والدین کو سکھایا یا سمجھایا جائے اور اگر کہیں ایک آدھ کم عقل نے کوئی ایسا ادارہ بنا بھی لیا تو ان کانفرنسز میں کوئی جاتا ہی نہیں۔ سب اسے فضول وقت گزاری یا گھٹیا فلاسفی کہہ کر قہقہے میں اڑا دیتے ہیں اس تنقید کے ساتھ کہ "پہلے اپنے بچے تو پال لو دوسروں کو بعد میں سکھا دینا"۔
ہم سوچتے ہیں کہ بچے پالنا یا سنبھالنا کونسا جوئے شیر لانے کا عمل ہے فطری طور پہ عورت اور مرد کے ملاپ سے بچہ بنتا ہے نو ماہ کے بعد وہ اپنی حتمی شکل کے ساتھ دنیا میں آ جاتا ہے اس کے بعد ماں اس کی خوارک، لباس، آرام کا خیال رکھتی ہے اور کما کر لانے کا فریضہ باپ ادا کرتا ہے۔ کبھی کبھی میاں بیوی دونوں کماتے ہیں اور اپنے اپنے وقت پہ دونوں بچے کا خیال رکھتے ہیں یوں بچہ دونوں کی نگرانی میں بڑا ہوتا جاتا ہے۔۔ ہوگیا بچے کی پیدائش سے لے کر پرورش کا انتظام۔
یہ نظام صدیوں سے یونہی چلا آ رہا ہے اور آگے بھی اسی طرح چلتا رہے گا اس میں کیا سیکھنا سکھانا۔ جو کام صدیوں سے لوگ کرتے آ رہے ہیں وہی ہم نے بھی کرنا ہے حالانکہ یہ واحد کام ہے جو والدین یا بزرگ اپنے بچوں کو نہیں سکھاتے ورنہ نئی دکان بیٹے کو خرید کر دینے سے پہلے باپ اسے پرانی دکان پہ اپنے ساتھ بٹھا کر دکانداری کرنا سکھاتا ہے اور بیٹی کو دعوت کا پکوان بنانے کی ذمے داری دینے سے پہلے ماں اسے اپنے ساتھ پہلے کچن میں چھوٹے موٹے کام کرنے بتاتی ہے یہ نہیں کہ پہلے ہی دن اسے دس بندوں کے لیے سالن بنانے لگا دیا یہ سوچتے ہوئے کہ میں بھی کئی سالوں سے پکا رہی ہوں اور یہ مجھے پکاتے ہوئے دیکھتی رہتی ہے اسے سمجھ ہے کچن میں کیسے کام کیا جاتا ہے خود کر سکتی ہے۔
جب کھانا بنانے اور دکانداری کروانے سے پہلے سکھایا جاتا ہے تو بچے پیدا کرکے اور پرورش کرنے کی تربیت دینا کیوں ضروری نہیں؟ ایک جیتی جاگتی جان کو دنیا میں لا کر اسے معاشرے کے لیے ایک لائق اور قابل انسان بنانا کیا فطری عمل ہے؟ جیسے کریں گے جو کریں گے سب ٹھیک ہوگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ بچہ بڑا ہوتا جائے گا۔ نوآموز والدین کی تربیت اتنی ضروری ہے جس طرح ایک نئے پودے کا بیج زمین میں بونے سے پہلے مٹی کا نرم کرنا۔
سخت مٹی کو کریدنا اور مسلسل پانی ڈالنا۔ تب ہی بیج سے پودا بنتا ہے اور پودا اگنے کے بعد اگر اسے مناسب ہوا، روشنی اور پانی نہ ملے تو وہ سوکھ کر مر جاتا ہے یہ حال انسانی جان کا بھی ہے ایک چھوٹا پودا تب تک تنا آور درخت نہیں بنتا جب تک اسے مناسب توجہ، وقت، اور خوراک نہ ملے۔ مگر بچوں اور پودوں میں کچھ فرق بھی ہے۔
بچے کو خوراک تو ملتی رہے مگر توجہ، وقت اور ذہنی آبیاری کا فقدان ہو تو وہ بچہ پودے کے مقابلہ میں مرجھا کر گرتا نہیں، بلکہ وہ بچہ قد کاٹھ میں بڑھ تو جاتا ہے مگر معاشرے کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتا اس پہ کبھی میٹھا پھل نہیں لگتا۔