Adab Se Kya Seekha?
ادب سے کیا سیکھا؟
بچوں کے لیے لکھنے والے ادیب دنیا میں جہاں کہیں بھی بستے ہیں میری سوچ کے مطابق وہ سبھی نایاب ہیرے ہیں۔ بڑی عمر میں بچوں کی پسند اور ذہن کو مدنظر رکھ کر ان کے لیے ادب لکھنا انتہائی مشکل کام ہے۔ جب ذہن دنیاداری کے جھمیلوں میں پھنسا ہو، یہ مشکل بھی ہو کہ آٹا، گھی، چاول کہاں سے اور کیسے پورا کرنا ہے؟ معاشی لحاظ سے پاکستان جس مشکل دور سے گزر رہا ہے وہ ہم پاکستانی خوب جانتے ہیں ہم گندم پیدا کرنے والوں کو ہی کھانے کے لیے آٹا نہیں مل رہا۔
اس دور کا ادیب بھی کہاں ان مسائل سے مبراء ہے؟ بلکہ بازار میں جس طرح کتاب بےوقعت ہو چکی ہے اسی طرح معاشی بازار میں کتاب لکھنے والے بھی حقیر ہی ہیں۔ جیب سے پیسے دے کر الفاظ بازار میں نمائش کے لیے رکھے جاتے ہیں۔ خیر بات کچھ زیادہ سنجیدہ موڑ لے گئی۔ گفتگو کا مدعا تھے بچوں کے ادیب کے، جو میرے نزدیک تو نایاب ہیرے ہیں بڑی عمر میں بچوں سا ذہن رکھتے ہیں ورنہ ہم جیسے تو جب سولہ کی عمر کے تھے تب بھی عشقیہ شاعری پڑھنے اور لکھنے کی طرف ہی دھیان تھا بلکہ شاعری تو چودہ سال کی عمر سے پڑھنی شروع کر دی تھی۔
اور اب جو بچوں کے لیے لکھتی ہوں تو وہ یا تو مدیران کو پسند آتا ہے یا پھر مزاج کا اختلاف آڑے آ جاتا ہے اور اس اختلاف کے چکر میں میری تحریر آئیں بائیں شائیں ہو جاتی ہے اور اس مدیر کا نمبر میری فون لسٹ سے آؤٹ۔ اسی لیے تو مواد شائع نہیں ہوتا۔ موبائل سے تحریر ٹائپ ہو کے دوسرے موبائل کے انباکس تک جاتی تو ہے مگر، میگزین کے صفحہ تک بمشکل ہی پہنچتی ہے۔ چونکہ میں بھی بچوں کے لیے کوئی دو تین کہانیاں بمعہ نظم لکھ چکی ہوں لہٰذا میرا بھی حق بنتا ہے کہ اس مضمون میں پہلے میں اپنے بھی مسائل لکھوں۔ ویسے میرا نام بچوں کی ادیب کے فہرست میں بالکل نہیں آتا کیونکہ ہمارے لیے تو مضمون نویسی ہی بھلی۔
بچوں کے ادبا کا قلم کیا خوب چلتا ہے کہ دل واہ واہ کہنے پہ مجبور ہے۔ اب یہاں میں کسی ایک ادیب کا نام لکھوں تو یہ باقی سب کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ لیکن "ادیب نگر" اور "سرائے اردو" یہ وہ دو ادبی گروپ ہیں جہاں بچوں کے ادیب رہتے ہیں سبھی ایک دوسرے کے رفیق اور غمگسار ہیں اور ان میں سے کچھ تدریس کے شعبے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک عام قاری کے طور پہ میں نے یہ سوال پوچھنے کی جسارت کی ہے کہ کیا جو یہ سب لکھ رہے ہیں بچے ان سے سیکھتے بھی ہیں یا نہیں؟ اگر سیکھتے ہیں تو کیا؟
بےشک ادبی رسائل میں بچوں کو مذہب نہیں پڑھایا جاتا مگر لکھنے والے ادب تو لکھ رہے ہیں تو کیا ہمارے نوعمر وہ ادب سیکھ رہے ہیں یا کورس کی کتابوں کی طرح ادب بھی صرف پڑھا جا رہا ہے؟ جیسے سکولوں میں بھی کتابوں کے رٹے لگتے ہیں کیا اسی طرح کہانی بھی صرف پڑھی یا سنائی جاتی ہے؟ کیا کوئی ایسا پیمانہ ہے جو بتا سکے کہ ایک ادبی طفل میگزین پڑھ کر کتنے فیصد بچے اس سے اخلاق اور ادب سیکھ سکے؟ میگزین کی سو فیصد خریداری تو اس بات کی ضامن نہیں کہ وہ اطفال کو اخلاق اور ادب بھی سکھا رہی ہے۔
ایک وقت تھا میرے والد صاحب گھر میں میرے پڑھنے کے لیے رسالہ "تعلیم و تربیت" اور رسالہ "پھول" لایا کرتے تھے۔ اپنے گھر میں صرف میں تھی جو ان رسالوں کو پڑھا کرتی تھی اور مطالعئہ شوق کی انتہا یہ تھی کہ شام کے وقت رسالہ آیا کرتا تھا اور اگلی شام میں تمام رسالہ پڑھ لیتی تھی۔ کچھ من پسند کہانیاں مجھے یاد بھی رہتی تھیں مگر نوعمری میں، میں نے کبھی ان سے کچھ سبق نہیں لیا۔ میں نے کبھی ان کہانیوں سے یہ نہیں سیکھا کہ دوست اگر ناراض ہے تو اسے فوراً منا لو۔ پودوں کو نقصان پہنچانا بری عادت ہے اس طرح کی بہت ساری اخلاقی باتیں جو ادیب کہانیوں میں لکھتے ہیں کیا ہمارے بچے ان سے کچھ سیکھ رہے ہیں؟
سچ بولنا، جھگڑا نہ کرنا، جانور اور پودوں کا خیال رکھنا، بڑوں کی عزت، چھوٹوں سے محبت، بڑوں کو سلام کہنا چاہے انھیں جانتے ہیں یا نہیں، ضرورت مند کی مدد کرنا، اپنی غلطی تسلیم کرنا اور معافی مانگنا۔ اسی طرح کی اور بہت ساری باتیں ہیں جو کتابوں میں لکھی جاتی ہیں اور بچے پڑھتے بھی ہیں تو کیا وہ صرف یہ کہانیاں صرف پڑھتے ہی ہیں؟ ایک عام سی بات ہے اخلاقی حوالے سے، بسا اوقات کسی محفل میں جگہ خالی نہ ملے بچہ کرسی پہ بیٹھا ہو اور کوئی عورت یا بزرگ جگہ نہ ملنے کے باعث کھڑا ہو تو کیا نوعمر بچہ بنا کسی کے کہے اپنی جگہ اس انجان عورت یا بزرگ کو دے دیتا ہے یا نہیں؟
اخلاقی اطوار تو یہ ہے کہ بچے میں بنا کہے یہ احساس جاگے کہ مجھے اپنے بڑے کے لیے جگہ خالی کرنی چاہیے تو کیا ادیب بچوں کو یہ اخلاقی اطوار اپنے قلم کے ذریعے دے رہے ہیں؟ کیا کبھی کسی مشہور اور معروف کتاب طفل کی ساری کاپیاں بک جانے کے بعد اس ادیب نے ایسا کوئی سروے کروایا ہے جس سے وہ یہ جان سکے کہ جو اخلاقی و ادبی سبق میں نے اپنی کہانی کے ذریعے بچوں تک پہنچایا وہ کتنے فیصد بچوں نے سیکھا ہے؟ کہ کسی میگزین کے شمارے میں یہ سوال آیا ہے کہ اس ماہ چھپنے والی کہانیوں سے بچوں نے کیا کچھ سیکھا ہمیں لکھ کر بھیجیں اور ساتھ یہ بھی بتائیں کہ جو سبق آپ نے ان کہانیوں سے حاصل کیا ہے اسے کس طرح اپنی انفرادی زندگیوں پہ بروے کار لائیں گے؟
ادب لکھنے والا ہاتھ بہت خوبصورت ہوتا ہے کیونکہ ایسا حسن خدا کسی کسی کو دیتا ہے مگر اس حسن کی چمک سے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگیوں کو بھی منور کرنا ادیب کا فرض ہے۔