Wednesday, 08 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hamza Khalil/
  4. Kya Bharat Mein Aman Mumkin Hai?

Kya Bharat Mein Aman Mumkin Hai?

کیا بھارت میں امن ممکن ہے؟

بھارت میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اپوزیشن کی 13 جماعتوں کو بھارتی وزیراعظم اور حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر نریندر مودی سے کہنا پڑا کہ بھارتی عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کریں۔ لیکن ایسا کیا ہوا تھا؟ اس موضوع سے پہلے ہم بھارت میں ممکنہ طور پر نافذ ہونے والے یکساں سول کوڈ پر بات کریں گے۔

یکساں سول کوڈ کامطلب ہے تمام بھارتیوں کے لئے ایک قانون، پڑھنے اور سننے میں یہ بہت اچھا معلوم ہوتا ہے لیکن اس سے مراد ہے کہ تمام مذہبی اقلیتوں بلخصوص اسلام کے مذہبی قوانین کی منسوخی دوسرے لفظوں میں اسلامی شریعی قوانین کی جگہ ہندوستانی قوانین کو مسلمانوں پر لاگو کرنا۔

بھارتی حکمران جماعت بی جی پی کی اسلام دشمن کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہےاور بھارتی الیکشن اس دشمنی کو مزید ہوا دیتے ہیں۔ بھارت میں اگلے عام انتخابات مئی 2024 کو منعقد ہونے جارہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی بھارتی ایوانوں میں متنازعہ سول کوڈ کے نفاذ کی کوششیں تیز کردی گئی ہے۔

1980 میں بی جی پی کی موجودہ شکل کے بعد ان کے مقاصد میں ایہودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور یکساں سول کوڈ کا نفاذ شامل تھا۔ ان مقاصد میں سے بی جی پی پہلے دو مقاصد حاصل کرچکی تاہم یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوششیں تیز کر دی گئی ہے۔ 1947 میں بھارت کے قیام کے ساتھ یکساں سول کوڈ کے نفاذ پر زور دیا گیا تھا تاہم اقلیتی نمائندوں کے شدید احتجاج پر اس کو موخر کر دیا گیا اور کہا گیا کہ بھارتی حکومت وقت کے ساتھ ساتھ ایسے حالات پیدا کریں کہ تمام بھارتیوں پر ایک جیسا قانون لاگو کیا جاسکے۔

یوں تو بھارت میں تمام شہریوں کے لئے یکساں قوانین موجود ہے اور بھارت اپنے سیکولر چہرے کو برقرار رکھنے کے لئے اقلیتوں کے لئے خصوصی قوانین بھی رکھتا ہے جن کا اطلاق شادی، طلاق، وراثت، گود لینے یا سرپرستی جیسے امور پر ہوتا ہے۔ ان تمام قوانین کے باوجود بھارت میں زیادہ تنقید اسلامی قوانین پر کی جاتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈرز اپنے جلسوں میں اسلامی قوانین کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی بات کرتے رہے ہیں۔ بھارتی آئین کی شق 44 یکساں سول کوڈ کے نفاذ کو تحفظ فراہم کرتی ہے تاہم شق 25 اور 26 میں اقلیتوں کو اپنی زندگی مذہب کے مطابق گزارنے اور مذہبی رسومات ادا کرنے کی اجازت حاصل ہے۔

بھارت میں سیکولر قوانین کے تحت اسپیشل میرج ایکٹ بھی موجود ہے جس کے مطابق مختلف مذاہب کے لوگ آپس میں شادی کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گودلینے یا سرپرستی کے بھی مشترکہ قوانین موجود ہے۔ ان سب قوانین کے باوجود یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوشش بھارتیہ جنتاپارٹی کی بدنیتی کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔

بابری مسجد کی شہادت ہو یا کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ، گجرات کے فسادات ہو یا حجاب پر پابندی، بھارتی مسلمانوں کی شہریت کی منسوخی ہو یا ووٹ کے حق سے محرومی، اسلامی ثقافتی ورثے کا بگاڑ ہو یا اسلامی تشخص میں تبدیلی لیکن اس دفعہ بی جی پی ایک قدم آگے بڑھ کر اسلامی شریعی قوانین کی بھارت میں منسوخی کا ارادہ رکھتی ہے۔

یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے ساتھ ہی بھارتی مسلمان شرعی قوانین کے مطابق شادی، طلاق، وراثت، گودلینے یا سرپرستی جیسے امور پر عمل نہیں کرسکے گے بلکہ ان کو بھارتی قوانین کے مطابق زندگی بسر کرنا ہوگی۔

اب ہم بات کرتے ہیں اپوزیشن جماعتوں کی امن اپیل کی، بھارت میں مسلم کش فسادات کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن میں یہاں ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا۔ 20 اپریل 2022 کو ہندوستان میں ہر سال کی طرح ہنومان کا دن منایا جارہا تھا۔ نئی دہلی کے ایک نواحی علاقے گھنی کچی میں شدت پسند ہندوؤں کا ایک جلوس اپنا مذہبی لباس پہنے تلواریں اور بندوقیں لہراتے ایک مسجد کے سامنے جمع ہوگئے جب مسلمان مغرب کی نماز ادا کررہے تھے۔

انتہا پسند ہندوؤں نے مسجد کا محاصرہ کرکے گالم گلوچ شروع کردیا اور لاوڈ سپیکر پر گانے بجانے لگے۔ یہ محاصرہ رات گئے تک جاری رہا اور پولیس اطلاع کے باوجود موقع پر نہ پہنچی۔ دونوں اطراف سے باہمی پتھراوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ انتہا پسند ہندووں مسلم علاقوں میں داخل ہوکر حالات کو اسی طرح خراب کرتے ہیں اور پھر پولیس کی زیرنگرانی لوٹ مار، تشدد اور اقدام قتل جیسے واقعات ہوتے ہیں۔

بھارت میں 80 فیصد ہندو اور 14 فیصد مسلمانوں کے درمیان تشدد کے واقعات کی ایک لمبی کہانی ہے لیکن اپریل 2022 کے بعد سے ہندوستان میں اس قسم کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ بھارتی مصنفہ صبا نقوی لکھتی ہے کہ " فساد کوئی نیا واقع نہیں لیکن میں نے ان میں سے اتنے واقعات ایک ساتھ نہیں دیکھے، ایسا لگتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو مار دینا چاہتے ہیں"۔

اپریل 2022 کو صرف نئی دہلی کے علاقے گھنی کچی میں ہی تشدد آمیز واقعات نہیں ہوئے بلکہ مدھیہ پردیش، جھاڑ کھنڈ، گجرات، گوا، مغربی بنگال اور آندھراپردیش میں بھی اس قسم کے واقعات دیکھنے کو ملے۔ جلتی پر تیل ڈالنے کے لئے بھارتی میڈیا نے واقعات کو بڑھا چڑھاکر اس انداز میں بیان کیا کہ سارا قصور مسلمانوں پر ڈال دیا گیا جس کے نتیجہ میں بھارت میں جگہ جگہ مسلمانوں پر حملے ہونے لگے اور ہندووں ٹولیاں مسلم علاقوں پر حملہ کرتی رہی۔ ان واقعات کے تدارک کے لئے گھنی کچی اور بعض دیگر حساس علاقوں سے مسلمانوں کو ہی حراست میں لیا گیا اور سرکاری مشینری کے ذریعہ ان کی عمارات کو مسمار بھی کیا گیا۔

اپریل 2022 کے واقعات اچانک رونما نہیں ہوئے بلکہ دسمبر 2021 سے حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے راہنماوؤں کی جانب سے مختلف جلوسوں سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا گیا تھا اور ہندووں سے ہتھیار اٹھانے اور صفائی مہم (مسلمانوں کی نسل کشی) کی اپیل کی گئی تھی۔

ان واقعات میں زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکمران جماعت خود ان واقعات میں ملوث رہی ہے یہاں تک کہ اپوزیشن کی 13 جماعتوں نے نریندر مودی سے درخواست کی کہ وہ عوام کو پرامن رہنے کی اپیل کریں لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے مکمل خاموشی چھائی رہی بلکہ جواب میں یہ کہا گیا کہ گزشتہ حکومتوں کے دور میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں۔

Check Also

96

By Azhar Hussain Bhatti