Baabay
بابے
کرونا وائرس انسانوں پر اسی طرح اچانک نازل ہوا جیسے کہ آسڑیلیا کے جنگلات میں اچانک آگ بھڑک اٹھی تھی۔ اس اچانک آگ سے تین ملین جانور زندہ جل گئے۔ اگر آپ نے اس آگ کی تصاویر دیکھی ہوتو زندہ جل جانے والے جانوروں کی بیشمار جلی ہوئی لاشیں اور ان کی آدھ کھلی ہوئی آنکھیں آسمان کی بلندی میں جذب ہوکر رب کائنات سے شکوہ کررہی تھی کہ اے کل کائنات کے مالک! ہم زندہ جل گئے اور تیری اشرف المخلوقات میں سے کوئی ہمیں بچانے نہیں آیا۔ یہ آگ شروع میں اتنے سے علاقے میں ہی پھیلی تھی جتنی وہان کی چھوٹی سے مارکیٹ میں کرونا وائرس کا پہلا مریض سامنے آیا۔ تاہم ہم انسان اپنی اقتصادی اور صنعتی ترقی میں اتنے مصروف تھے کہ ہمیں آگ کو وقت پر بجھانا یاد نہیں رہا جس طرح اب اللہ کو وائرس پر قابو پانا یاد نہیں آرہا۔
وائرس جب بھی ختم ہوگا، نفیساتی مسائل ہمارے سامنے سر اٹھائے موجود ہونگے۔ نفسیاتی عوارض آج کے جدید دور کی ایجاد نہیں ہے یہ وہی ذہنی مسائل ہے جن کی بنیاد پر قابیل نے ہابیل کا قتل کیا تھا۔ لیکن ہمیں ماضی میں ایسے مسائل کی تعداد بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کی بہت بڑی وجہ ہمارے معاشرے کے "بابے" تھے۔ جب میں "بابا" کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو میری مراد وہ "بابے" نہیں ہے جو اس وقت آپ کے ذہن میں موجود ہوگے یا وہ "بابے" جو ہمارے معاشرے میں عام طور پر پائے جاتے ہیں۔"بابے" کی اصطلاح سے میری مراد وہ "بابے" ہیں جن کا ذکر اشفاق احمد مرحوم کیا کرتے تھے۔ اشفاق احمد مرحوم کو اللہ تعالی نے روحانیت کا علم عطاء کیا تھا اور وہ اخلاقی اقدار میں بلندی پر فائز تھے۔ اللہ پاک ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء کریں۔
آج کل کے جدید "بابو" کی بات کی جائے تو انہیں جدیدمعانی میں "سائیکٹریسٹ یا ماہر نفسیات" کہا جاتا ہے۔ ان کی تعداد میں اب اضافہ ہورہا ہے لیکن پھر بھی یہ کسی ملک کی مجموعی آبادی کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ ماہر نفسیات آپ سے کچھ پیسے، جسے فیس کہاجاتا ہے، وصول کرتا ہے اور کچھ دیر آپ کی باتیں سنتا ہے اور پھر اگلی دفعہ آنے کا کہہ دیتا ہے۔ اگلی دفعہ وہ پھر آپ کی باتیں سنتا ہے، آپ کی طرف توجہ دیتا ہے، جس سے آپ کے ذہنی غبار میں کمی آتی ہے اور آپ اپنے آپ کو ہلکا محسوس کرتے ہیں۔ پھر وہ آپ کی نفسیات سے کھیلنے کے لئے یا اپنی فیس کی معقول وجہ بنانے کے لئے آپ کو کچھ ادویات لکھ کر دیتا ہے جس کا مجموعی طور پر مقصد صرف نیند کو آپ کے دماغ پر قابض کرنا ہوتا ہے۔ یہ جدید "بابے" جو کام پیسے لے کر کرتے ہیں، پہلے دور میں یہ کام فری ہوا کرتے تھے اور اگر تھوڑی سی کوشش کی جائے تو اج بھی ایسا ممکن ہے۔
عام طور پر "بابے" سے ہمارے ذہن میں ایک ایسا فرد آتا ہے جس نے سبز رنگ کا چولا پہنا ہوا ہو، اس کے ہاتھ میں کڑے ہو، اس کی انگلیوں میں بےشمار انگھوٹھیاں ہو، گلے میں موتیوں کی مالا ہو، اس کے بال لمبے اور گندے ہو اور اس کے چہرے پر لمبی سی بےترتیب داڑھی ہو۔ ہم کسی ایسے انسان کو "بابا" ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے جو ہمیں کسی درگاہ یا مزار کے پاس نہ ملے یا جوتنہائی اختیار نہ کرتا ہو۔ تنہائی اختیار کرنا اسلام کی بنیادی تعلیمات کے بھی خلاف ہے جیسے کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ رسالت ماب حضرت جبرائیل کی آمد سے قبل تنہائی میں جاکر عبادت کیا کرتے تھے لیکن اس میں بریک سا نقظہ یہ ہے کہ پہلی وحی کے نزول کے بعد رسالت ماب نے کبھی ایسی تنہائی اختیار نہیں کی۔
قرآن مجید میں اللہ تبارک تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ میں نے انسان کو اپنی مثل پیدا کیا۔ اس ایک آیت میں ہمارے پاس "بابے" کا راز دفن ہے۔"بابا" وہ ہوتا ہے جو اللہ کی کوئی رحمانی صفت اختیار کرلیتا ہے، جو اپنے کام چھوڑ کر اللہ کی مخلوق کے کاموں میں لگ جاتا ہے۔ جو اپنی ضرورت میں سے دوسروں کو عطاء کرتا ہے۔ ایک صدقہ تو وہ ہوتا ہے جو ہم لوگ کرتے رہتے ہیں اس سلسلے میں ہم نے اپنی تنخواہ یا آمدنی میں سے کچھ حصہ مختص کیا ہوتا ہے، ہم یہ اضافی آمدنی صدقہ کردیتے ہیں۔ یہ بھی اللہ کی توفیق ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطاء کرتا ہے۔ لیکن "بابے" کا راز اس صدقے اور اس ترجیحی میں ہے جو ہم اپنی ضرورت میں سے کسی کو دیتے ہیں۔ جب ہمارے پاس اپنے حصے کی چیز ہو اور کوئی ضرورت مند آئے تو ہم یہ چیز اس کو عطاء کردیں۔ جب اپنا من مار کر کسی کی کسی ضرورت کو پورا کرنے کی ضرورت کی جاتی ہے تو اس میں "بابے" کا راز مخفی ہے۔
اللہ سبحان و تعالی کی بہت سی صفات ہے جن کو بہت سارے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے جلالی صفات اور رحمانی صفات بھی شامل ہے۔ اللہ کی رحمانی صفات کو اپنے اوپر لاگو کرنے والا "بابا" ہوتا ہے۔ جو دوسروں پر رحم کرتا ہے اور ودسروں کے لئے نرم رویہ اختیار کرتا ہے۔ اس میں سے ایک صفت لوگوں کے کاموں میں مصروف رہنا ہے۔ جیسا کہ سورۃ رحمن میں اللہ سبحان و تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ "اور اسے روز ایک نیا کام ہے" یہ آیت اپنے معانی اور تفصیلات میں بڑی عجیب آیت ہے اور مطالب کا ایک سمندر رکھتی ہے۔ اللہ کو وہ کیسے کام ہے جو روز نئے ہیں اور وہ روز ہی ان کاموں میں مصروف رہتا ہوگا۔ اس آیت کی تفصیل پر پھر کسی کالم میں بات کریں گے تاہم لوگوں کے کاموں میں مصروف رہنا بھی ایک خدائی صفت ہے اور "بابا" ہونے کی نشانی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ "بابا" تلاش کہا کیا جائے؟ "ہمیں "بابا" کیوں تلاش کرنا ہے؟ ہم اپنی ذات میں اور اپنے معاملات میں خود "بابا" کیوں نہیں بن جاتے؟ جنہیں مل کر لوگوں کو تصفی ملے اور ان کی نفسیات کو سکون مہیا ہوتا رہے۔ "بابا" ایک کردار کا نام نہیں ہے یہ ایک خوبی اور صفت کا نام ہے اس مرتبے پر پہنچے والا انسان ذہنی طور پر سکون میں رہتا ہے، لوگوں کے دلوں میں اس کی عزت بھی ہوتی ہے۔"بابا" بارگاہ الہٰی میں بڑا مقرب ہوتا ہے، جب اس کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھ جائے تو اسے خالی نہیں لٹایا جاتا۔ میں آخر میں اشفاق احمد صاحب سے الفاظ سے ہی آج کے کالم کا اختتام کروں گا کہ اللہ آپ کو آسانیاں عطاء کریں اور آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطاء کریں۔