Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Sone Ke Baad Heera Supurd e Khak Kya

Sone Ke Baad Heera Supurd e Khak Kya

سونے کے بعد ہیرا سپردِ خاک کیا

کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں اردو ادب کے بہت بڑے نام نامور ادیب و شاعر انور مسعود صاحب کی اہلیہ کا انتقال ہوا جس پر انور صاحب نے ایک شعر کہا کہ۔۔۔۔

خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ

ہم نے سونا سپردِ خاک کیا

اس شعر میں موجود درد صرف وہ سمجھ اور محسوس کر سکتا ہے جس کی رفاقت ٹوٹی ہو پھر وہ چاہے کسی بھی شکل میں کیوں نہ ہو۔

ویسے تو یہ حقیقت ہے کہ موت تو سب کو آنی ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا سامنا ہر پیدا ہونے والے شخص نے کرنا ہی کرنا ہے اور اسی طرح نظام چل رہا ہے جو آیا ہے اس نے بالآخر جانا تو ہے ہی مگر یہ عقیدہ اس وقت ایمان کی طرف حرکت کرتا ہے جب آپ کا سب سے قریبی رشتہ اِس کا شکار ہوتا ہے جس کے بغیر آپ زندگی کا تصور بھی نہ کرتے ہوں اور یہ سوچ کے بھی ڈر جاتے ہوں کہ ان کے بغیر اس دنیا میں رہنا کیسے ممکن ہے اور جب وہ جاتے ہیں تو زندگی بے رنگ سی محسوس ہوتی ہے اور ان حالات میں زندگی بسر کرنا ایک نا ممکن سا کام معلوم ہوتا ہے مگر کچھ عرصے بعد آپ کو اللہ کے اس عمل کو تسلیم کر کے اللہ کی رضا میں راضی ہونا پڑتا ہے۔

یہ ہی فطرتِ دنیا ہے اور صبر کے بغیر کوئی راستہ نہیں بے شک صبر ہی بہترین عمل ہے اور اللہ تعالٰی اپنے آخری کلام میں بھی فرماتے ہیں کہ "بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے"۔ یہ نہایت ہی تکلیف دہ عمل ہے جب آپ کی زندگی کا سب سے قریبی رشتہ آپ کو اکیلا چھوڑ کر جا رہا ہو اور آپ بے بس کھڑے ہوں۔ اس مشکل ترین گھڑی سے گزرنے والا ہی اس کیفیت کو سمجھ سکتا ہے اور اس درد کو محسوس کر سکتا ہے۔

البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس انسان پر جس قدر آزمائش اللہ قادرِ مطلق ڈالتا ہے اُسے پھر صبر بھی اتنا ہی عطا کرتا ہے تا کہ وہ اس آزمائش کو برداشت کر سکے۔ اور یہ تو اس پاک ذات کا وعدہ ہے کسی پر بھی اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ لیکن اس سب کے باوجود جب اس طرح کا کوئی عمل واقع ہوتا ہے تو اس وقت آپ کی کیفیت بالکل مختلف ہوتی ہے اور آپ کے غم کو صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جو اس عمل سے گزر چکا ہو۔

پھر انسان کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ آخر کار ہمارا بھی انجام موت ہی ہے ہم نے بھی اک نہ اک روز ان کی طرح چلے ہی جانا۔ یہ زندگی کا اصول ہے ہر آدمی کا وقت مقرر ہے اور وہ اُس مقرر کردہ وقت کے مطابق ہی اس دنیا فانی سے کوچ کرے گا۔ اور کچھ لوگ اس طرح دلوں میں زندہ رہتے ہیں کہ:

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتر جاؤں گا

آج سے کوئی چودہ سال پہلے جس وقت میری عمر تقریباً پانچ سال تھی میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا تھا اور میاں محمد بخش صاحب کے مطابق کہ"باپ سراں دے تاج محمد" میرے سر کے تاج میرے بچپن ہی میں ہمیں اپنی شفقت سے محروم کر گئے۔ میرے والد صاحب کا شمار علاقعے کے معزز ترین افراد میں ہوتا ہے۔ اپنے علاقعے کے بڑے زمینداروں میں ہونے کے باوجود اپنی ساری عمر شرافت میں گزاری۔ پیشے کے لحاظ سے میرے والد صاحب ڈاکٹر تھے۔ علاقے میں جس سے بھی ملا اس سے اپنے والد صاحب کی تعریف ہی سنی اور آج لوگ ہماری بھی عزت ان کی وجہ سے ہی کرتے ہیں مگر اس کے باوجود یہ خواہش دل میں کسی نہ کسی وقت پیدا ہو ہی جاتی ہے کہ کاش ان کا سایہ ہمارے سر پے کچھ اور عرصہ سلامت رہتا مگر انسان تو صرف خواہش میں ہی صاحبِ اختیار ہے اور ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ کیا خوب کہا ہے کسی نے کہ:

جس کو تصویر دیکھاتا ہوں یہی کہتا ہے

تیرا نقصان تو پورا نہیں ہونے والا

اور یہ نقصان واقع ہی مرتے دم تک پورا نہیں ہوتا۔ کیوں کہ جتنا بھی پیار انسان کو مل جائے باپ کی شفقت کی کمی ہر لمحے محسوس ہوتی رہتی ہے۔ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے کہ:

"تمھارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے تم لوگ سوائے اس کے کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اگر تمھارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انھیں اف تک نہ کہو، نہ انھیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ پروردگار ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔"

یہ بھی اک حقیقت ہے کہ ماں سے بڑا ہمدرد اور باپ سے بڑا ہمسفر اور کوئی نہیں ہوتا۔

میری زندگی کا سب سے سیاہ ترین دن اور ایسا تکلیف دہ دن جیسا نہ کوئی آیا اور نہ کوئی آئے گا وہ دن جب میرے والد کے جانے کے تیرہ سال بعد میری جنت میری والدہ اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئی۔ مجھے اپنی زندگی میں سب سے پیاری میری ماں تھی جسے میں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تصور کرتا ہوں۔ یہ ایسا اذیت دہ لمحہ تھا کہ انسان کا جی چاہتا ہے کہ ساتھ ہی دفنا دیا جائے آہ کہ ایسا ممکن نہیں ہوتا۔

میری والدہ نے اپنی زندگی میں ہمیں کبھی والد صاحب کی کمی محسوس نہ ہونے دی اور والد اور والدہ دونوں کا کردار ادا کیا آہ کہ میری جنت کی جگہ کوئی نہیں پوری کر سکتا۔ آقا کریمؐ ﷺ سے درجے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا سب سے زیادہ خدمت کی حق دار تمہاری ماں پھر پوچھا گیا فرمایا تمہاری ماں پھر پوچھا گیا تمہاری ماں چوتھی بار پوچھا گیا تو فرمایا تمہارا باپ۔

ایک جگہ بتایا جاتا ہے کہ آپؐ ﷺ قافلے کے ساتھ کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں والدہ محترمہ کی قبر کے پاس سے گزرے تو وہیں بیٹھ گئے اور ساری رات بیٹھ کے روتے رہے۔ اور پھر خالقِ کائنات نے بھی جب انسان سے اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہا تو فرمایا میں ستر ماؤں سے زیادہ انسان سے محبت کرتا ہوں۔ شاید ہی کوئی لمحہ ہو جب مجھے میری جنت میری والدہ کی یاد نہ آئی ہو۔ انور صاحب سے معزرت کے ساتھ۔۔۔

آہ کہ جس گھڑی بھی اپنی ماں کے واسطے

دستِ دعا اُٹھایا تو اشکوں سے بھر گیا

خالقِ کائنات اور اس کے پیارے پیغمبرؐ ﷺ کے بعد سب سے مخلص اور پیار و محبت سے بھر پور رشتہ اگر کوئی ہے تو وہ آپ کی والدہ کا رشتہ ہے۔ خالقِ کائنات اپنے پیارے پیغمبرؐ ﷺ کے صدقے سب کے سروں پر اس رشتہ کا سایہ سلامت رکھے۔ آپ کی والدہ سے بڑا کوئی پیر نہیں وہی آپ کے لیے ولیِ کامل ہے۔

آپﷺ سے بھی اک صحابیؓ نے جہاد میں شرکت کی اجازت چاہی تو نبی کریمؐ ﷺ نے دریافت کیا تمہھارے والدین زندہ ہے صحابیؓ نے عرض کی جی زندہ ہیں فرمایا ان کی خدمت کرو یہ ہی تمہارا سب سے بڑا جہاد ہے۔

کس قدر والدین کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ حلانکہ اس وقت زیادہ سے زیادہ جہاد کرنے والوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ اس سے بڑا بدبخت کون ہو سکتا ہے جو اپنے والدین کو راضی کر کے جنت حاصل نہ کر سکے۔ اللہ تعالٰی کے آخری کلام میں ہے کہ:

"ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی تاکید کی ہے، اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (سو ہم نے اسے نصیحت کی کہ) میرا اور اپنے والدین کا شکر بجالا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے"

یاد شدت سے مجھے آتی ہیں ماں کی باتیں

کوئی لے کر چلے گھر مجھ کو پرانے والے

یادیں ہی باقی رہ جاتی ہیں لہذا جس قدر ممکن ہو سکے والدین کی خدمت کا حق ادا کرتے رہنا چاہیے۔

آپؐ ﷺ نے ارشاد فرمایا "اور ماں کا حق ادا کرتے رہو ربِ کائنات کی قسم اگر تم گوشت کا ایک ٹکڑا بھی کاٹ کر اسے دے ڈالو تو بھی اس کا چوتھائی حق ادا نہ کر سکو گے۔" میاں محمد بخش صاحب نے بھی فرمایا نہ کہ:

باپ سراں دے تاج محمد

تے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں

ہر اک چیز بازاروں لھبدی

تے نہیں لبھدیاں نے ماواں

ان دونوں رشتوں کے جانے کے بعد انسان کو زندگی بہت مشکل اور کھٹن لگتی ہے مگر پھر ایک خیال یہ بھی ہے کہ رب تعالٰی کو سب سے پیارا اپنا محبوب جن کی وجہ سے یہ کائنات تخلیق کی گئی نبیِ کریمؐ ﷺ بھی اپنے بچپن میں ہی ان دونوں رشتوں سے محروم ہو گئے۔ آپؐ ﷺ کے والد محترم کا انتقال آپؐ ﷺ کی آمد سے تقریباً چھ ماہ پہلے ہو گیا تھا جبکہ آپؐ ﷺ کی والدہ محترمہ کا انتقال جب ہوا تو آپؐ ﷺ کی عمر تقریباً چھ برس تھی۔

پھر یہی خیال آتا ہے کہ بے شک اک دن سب نے ہی خاک ہو جانا اور حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کہا کرتے تھے کہ کہ اس بات کا صرف عقیدہ موجود ہے ہمارے اندر ایمان کہاں ہے یقین والا ایمان کہ ہم مرنے کے بعد زندہ کیے جاہیں گے اگر یہ عقیدہ نہیں ایمان ہوتا تو ہمارے معاشرے اس طرح برائیوں کا شکار نہ ہوتے اور قرآن پاک کی تعلیم اور اس کو سیکھنے کا شوق ہر شخص میں پایا جاتا۔

یہ حقیقت ہے کہ خالق کے بعد انسان کو مکمل ماں کی ذات ہی کرتی ہے۔ وہ بہت ہی خوش نصیب اور قسمت والے ہوتے ہیں جن کو والدین میں سے ایک یا پھر دونوں ان کے سر پے سلامت رہیں اور وہ ان کی خدمت کر کے خالقِ حقیقی کو راضی کرتے رہیں۔ کیونکہ جب یہ رشتے چلے جاتے ہیں تو پھر ان کا احساس ہی رہ جاتا ہے آہ کہ ہر وقت ہمارے لیے دعا میں بلند رہنے والے ہاتھ کہاں چلے گئے۔

اس لیے جن کے والدین حیات ہیں وہ بھرپور خدمت کر کے اپنے خالق و مالک کو راضی کریں اور جن کے اس دنیا فانی سے حقیقی دنیا کی طرف رخصت ہو گئے ہیں وہ ان کے لیے مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے رب تعالٰی کے حضور دعا کیا کریں۔ اللہ تعالٰی سب کے والدین کو سلامت رکھے اور جن کے والدین وفات پا چکے ہیں ان کی اپنی پیارے نبیؐ ﷺ کے صدقے مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔ اور سب کو اسلام پر چلنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Muzaffarabad Mein 8 Din

By Haider Javed Syed