Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hamza Bhatti/
  4. Quaid Banam Kaptan O Awam

Quaid Banam Kaptan O Awam

قائد بنام کپتان و عوام

عالم بالا

میرے پیارے کپتان اور پاکستانیوں!

میرے بچے مجھے کچھ عرصے سے خبر مل رہی ہے کہ تم کافی مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہو۔ معاشی و سیاسی مسائل کے ساتھ ساتھ مہنگائی میں جس قدر اضافہ ہو رہا ہے اس سے عوام تم سے خوش نہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تم جو نعرہ تبدیلی کا لگا کے آئے تھے عوام کو تم سے حد سے زیادہ تواقعات تھیں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تم ان تواقعات پر پورا اترنے کی کوشش پوری کر رہے ہو مگر کہیں تمہیں کھلاڑی اچھے نہیں دستیاب اور کہیں بیوروکریسی تمہارے راستے میں روکاٹ ہے لیکن میرے بچے تم نے ہمت نہیں ہارنی کیونکہ اگر تم اس راستے میں ناکام ہوگئے تو عوام بہت مایوس ہو جائے گی اور میں نہیں چاہتا کہ ایسا ہو ہم نے کتنی کوششیں کر کے یہ ملک آزاد کروایا تھا اور مجھے یقین تھا کہ میرے بعد بھی یہ اسی طرح خوشحال رہے گا۔

لیکن میرے جانے کے بعد بہت کچھ ایسا ہوا جو اگر نا ہوتا تو میرا یہ پیارا وطن آج زیادہ مستحکم ہوتا۔ میرے جانے کے بعد سب سے پہلا کام جس سے مجھے رنج ہوا وہ میرے بہادر ساتھی نواب لیاقت علی خان کا قاتل تھا۔ اس کے بعد مجھے جسٹس منیر سے ایک گلا ہے کہ اس نے سکندر مرزا کی جمہوریت کے خلاف بغاوت کے حق میں فیصلہ دے کے کچھ قوتوں کے لیے ایسا راستہ کھولا کہ پھر اس سلسلے نے روکنے کا نام ہی نا لیا۔ مجھے اس بات کا بھی بڑا دکھ ہے کہ میرے جانے کے بعد میری ایک ہی نشانی جس نے میرے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر دن رات پاکستان کو حاصل کرنے کے لیے لگا دی میری پیاری بہن فاطمہ جناح، تم لوگوں نے آخری وقت میں اس کے ساتھ اچھا نا کیا اور ایک ڈکٹیٹر کو مادر ملت پر ترجیح دی۔

اور اس دن تو میں خون کے آنسو رویا جس دن مجھے پتہ چلا کہ وہ پاکستان جس کو ہم نے اتنی محنت سے آزاد کرویا تھا وہ دو لخت ہو گیا اور اس کا مشرقی حصہ بنگلہ دیش کے نام سے ایک نیا ملک بن گیا۔ اب اس کی ذمہ داری ہندوستان، یحیٰی خان یا شیخ مجیب الرحمٰن اور بھٹو ڈالیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا سب کے سب اس کے ذمہ دار ہیں۔

ہم نے تو یہ ملک اس لیے بنایا تھا کہ اس میں عوام کے منتخب کردہ نمائندے حکومت چلائیں مگر یہاں تو ایوب خان دس سال رہا تو دو سال کے لیے یحیٰی خان آ گیا وہ گیا تو ایک منتخب نمائندے کو پھانسی پے چڑھا کر ضیاء الحق اس ملک پر گیارہ سال حکومت کرتا رہا اور پھر پرویز مشرف نے قریب آٹھ نو سال حکومت کے مزے لوٹے۔

عزیزم اپنے دوست اسلامی ملک ترکی کی طرف تو دیکھو وہاں منتخب نمائندے کی حکومت گرانے کی کوشش کی گئی تو عوام نے بھرپور مزاحمت سے اس کوشش کو ناکام کر دیا اور یہاں منتخب نمائندوں کو پھانسی دے دی جاتی ہے اور کوئی تبدیلی تک نہیں آتی۔

میرے بچوں میں چاہتا ہوں تم سب ساتھ مل کے چلو حکومت کو چاہیے وہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلے اور اپوزیشن بھی اس ارض پاکستان کی خاطر حکومت کا ملکی ترقی میں ساتھ دے اور تیسری قوت جو ان سے بھی مضبوط تصور کی جاتی ہے وہ بھی اپنا کردار اس میں ادا کرئے۔ میرے بچوں ایک دوسرے کو گرانے میں اس حد تک نا چلے جاؤ کے ملکی وقار کا خیال بھی بھول جاؤ۔ سب سے پہلے پاکستان سے اپنا تعلق ایک ذمہ دار شہری کے طور پر ادا کرؤ اس کے بعد کسی سے وابستہ ہو۔ مجھے سندھ کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ وہاں سب سے زیادہ جاگیرداری والا نظام قائم ہے دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گی اور وہاں کے لوگ ابھی بھی وہی برسوں پرانی زندگی گزانے پے مجبور ہیں وہ ابھی تک بہت سی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔

میرے زندہ دل جوانوں دیکھو کچھ عرب گمراہ کن راستے پر چل پڑے ہیں وہ اس اسرائیل کو تسلیم کر چکے جو اسلام مخالف نظریات پر وجود میں آیا خبر دار تم اس کو تسلیم کرنے کے نزدیک بھی مت جانا یہ تمہاری بربادی کا سبب بنے گا اگر تم نے اس معاملے میں اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی لانے کی کوشش کی۔

میرے بچوں ہندوستان ہر محاذ پر تمہیں بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور تم آپس میں ہی لڑے جا رہے ہو کم از کم ملکی مفاد کے لیے تو ایک ہو جاؤ وہ فوج جو اس وطن عزیز کے تحفظ کی امانت ہے اگر تم لوگ ان کو ہی برا بھلا کہنا شروع کردو گے تو باہر کی دنیا ان کا کیا تصور لے گی۔ بنیادی طور پر جس مزاحمت کے راستے پر اپوزیشن چل رہی ہے اور جس مداخلت کی یہ بات کرتے ہیں یہ اس وقت روکنی تھی جب ذوالفقار علی بھٹو پہلے ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان اور پھر دوسرے ڈکٹیٹرجنرل یحیٰی خان کے لیے کام کرتے تھے اور ان کے نعرے لگتے تھے یہ مداخلت اس وقت روکنی تھی جب نواز شریف تیسرے ڈکٹیٹر جنرل ضیاءالحق کے لیے کام کرتے تھے اور ان کے نعرے لگتے تھے اور بقول جنرل حمیدگل ان کے ساتھ مل کے بے نظیر بھٹو کے خلاف آئی جے آئی بنائی تھی۔ اور تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ جب جنرل ایوب خان نے پہلا مارشل لاء لگایا اور آئین بنایا تو ان کی ٹیم سے ایک غلطی یہ ہو گئی کہ آئین میں ایک آرٹیکل بنا دیا گیا جس کے تحت صدرات کے امیدوار بننے کے لیے صدر کی کرسی چھوڑنی ضروری ہوگی مگر بعد میں جب صدراتی انتخابات قریب آئے (جس میں ایوب خان اور مادر ملت فاطمہ جناح کا مقابلہ تھا) تو جنرل صاحب کو اس کا احساس ہوا کہ صدر رہنا بھی ضروری ہے اگلا صدرتی امیدوار بننا بھی لہذا انھوں نے آئین میں ترمیم کا حکم دیا۔ اب سب جانتے ہیں کہ آئین میں ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کا ہونا لازم ہوتا ہے اب حکومت یعنی جنرل ایوب خان کے پاس دو تہائی اکثریت کے لیے دو ارکان کم پڑ رہے تھے۔ لہذا اپوزیشن کے دو ارکان کی حمایت درکار تھی تو جو ارکان حکومت کی مدد کو آئے ان میں سے ایک حضرت مولانا مفتی محمود صاحب تھے جو بعد میں بھٹو کے خلاف جنرل ضیاء کے ساتھیوں میں بھی رہے جو مولانا فضل الرحمٰن کے والد تھے جو آج اس مزاحمتی تحریک کے قائد ہیں۔ لہذا یہ مداخلت اس وقت روکنی تھی۔

میں تو بطور بابائے قوم آپ کو یہی مشورہ دوں گا کہ اپنے ملک کی ترقی کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور ذاتی اختلافات کو ایک طرف کر کے ملکی وقار کے لیے مل کے کام کریں اور محنت کریں۔ تاکہ پاکستان کا شمار بھی ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں ہونے لگے۔ دیکھو ہتھیاروں کی طرف زور دینے کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کی طرف بھی توجہ دو۔ اور جاپان جیسے ملکوں سے سبق سیکھو جو اتنے مشکل حالات سے گزرنے کے بعد اب ٹیکنالوجی میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔

زیادہ بات کو لمبی کرنے کی بجائے اسی دعا پر اختتام کروں گا کہ الله پاک اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیﷺ کے صدقے اس ملک کو تاقیامت قائم رکھے اور حقیت میں ایسا ملک بنائے جس کا خواب میں نے اور میرے دوست علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا۔

والسلام آپ کا اپنا قائد محمد علی جناح

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Brahui Zaban CSS Nisab Mein

By Asadullah Raisani