Kauf Nahi Ehtiat
خوف نہیں احتیاط
اس وقت پوری دنیا میں خوف طاری ہے۔ وسطی ایشیا سے لے کر یورپ تک سب کے سب ایک ہی خوف میں مبتلا ہیں۔ اور وہ خوف ہے ایک ایسے وائراس کا جو کہ ایک نقطے کے بھی شاید ہزارویں حصے جتنا سائز رکھتا ہے۔ وہ ایٹمی طاقتیں اور اپنی ترقی پر ناز کرنے والے ممالک جو یہ کہتے دکھائی دیتے تھے کہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اب سب پر خوف طاری ہے۔ اِس نے ساری دنیا کا نظام بدل کر رکھ دیا ہے اور سب کچھ روک کر رکھ دیا ہے۔ سب لاک ڈاون کی طرف جا رہے ہیں۔
31 دسمبر کو چین میں نمودار ہونے والے اس وئراس نے دیکھتے ہی دیکھتے دو ماہ کے قلیل عرصہ میں تقریباً پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اور ہر طرف اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہر ملک نے داخلے پر پابندی لگا دی ہے اور لوگوں کو گھروں سے کم نکلنے کی ہدایت کی گئی ہے کیونکہ ابھی تک اس کا مکمل علاج تلاش کرنے میں سب ناکام دکھائی دے رہے ہیں اسی لیے گھروں میں رہ کر اور میل جول کم کرکے اس مہلک وبا سے بچا جا سکتا ہے۔ اور ایک دوسرے سے دور رہنے اور کم از کم ایک دوسرے سے پانچ چھ فٹ کا فاصلہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
جون ایلیاء مرحوم نے یہ شعر شاید اسی وقت کے لیے لکھا تھا کہ:
اب خطرے کی کوئی بات نہیں
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
مظہر عباس صاحب کی بات پڑھ رہا تھا کہ 70 کی دہائی میں جامعہ کراچی کے وائس چانسلر نے حکم دیا کہ طلبہ و طالبات کے درمیان تین سے پانچ فٹ کا فاصلہ رکھا جائے۔ مرحوم پروفیسر اگر آج زندہ ہوتے تو بڑے خوش ہوتے کہ میں نہ کہتا تھا فاصلہ رکھو آخر اب اُس سے ڈبل فاصلہ رکھنا پڑ گیا۔
موجودہ صورتحال کے مطابق پاکستان میں اس مہلک وبا کے شکار مریضوں کی تعداد آٹھ سو تک پہنچ چکی ہے اور سب سے زیادہ تعداد صوبہ سندھ میں بتائی جاتی ہے جس کی حکومت کافی اچھے اقدامات اُٹھا رہی ہے۔ چین میں بتایا جا رہا ہے کہ اس پر قابو پا لیا گیا ہے جبکہ سپین اور اٹلی وغیرہ میں میں صورتحال کافی خراب ہے اور امریکہ اور برطانیہ بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں اور بردار اسلامی ملک ایران میں بھی اس مہلک وبا سے کافی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
صفائی نصف ایمان ہے یہ ہم سنتے تو ہر جگہ ہیں مگر اس پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھتے مگر اب یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ صاف ستھرا رہنے والے اس بیماری سے کم متاثر ہو رہے ہیں بانسبت کم صاف ستھرا رہنے والوں کے۔ اور ڈاکٹرز کے مطابق ہاتھ زیادہ سے زیادہ دھویں اور ماسک کا استعمال کریں اور خاص طور پر میل جول میں کمی کریں۔ اور ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے گریز کریں۔
مرحوم احمد فراز نے تو بہت پہلے بتا دیا تھا کہ
"دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا"
مگر اس فقرے کی سمجھ ہمیں اب جا کے آئی۔
وہ افتخار عارف کا بھی اک شعر ہے
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
اسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
لیکن موجودہ حالات افتخار عارف صاحب کے اس شعر کی نفی کر ہے ہیں کیونکہ موجودہ حالات میں تنہائی ہی میں بقا ہے۔ اور تنہائی میں رہنے والوں کے لیے ہی بچنے کا امکان ہے۔ اور میرے پیرومرشد نے بھی فرمایا تھا
"فردقائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں"
یعنی قلندرِ لاہوری نے بھی ربط ملت کو قوم کی بقا قرار دیا لیکن آج ہر ڈاکٹر ہر حکومت کہ رہی ہے کہ ربط ملت میں تمہاری فنا ہے لہذا گھروں میں قید ہو جاؤ اگر اس مہلک وبا سے بچنا ہے۔ ایک تلخ حقیت ہے مگر کیا خوب کہا ہے کسی نے
وہ تعفن ہے کہ اس بار زمیں کے باسی
اپنے سجدوں سے گئے رزق کمانے سے گئے
دل تو پہلے ہی جدا تھے یہاں بستی والو!
کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے
میں خود تنہائی کو زیادہ پسند کرنے والوں میں سے اور ربط کم کرنے والوں میں سے نہیں ہوں مگر کیا کریں اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
چلی ہے شہر میں اب کے ہوا ترکِ تعلق کی
کہیں ہم سے نہ ہو جائے خطا ترکِ تعلق کی
مگر ان حالات میں اس قسم کی خطا جس میں آپ کی زندگی محفوظ رہے کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔ ایسی وبا جس میں موت کا امکان صرف دو فیصد سے لے کر سات فیصد تک ہے نے انسانوں کو کس قدر خوف میں مبتلا کر دیا ہے اگرچہ موت برحق ہے اور آخر ایک دن ہر کسی کو یہ دنیا چھوڑنی ہے اور یہ فقرا عقل وشعور رکھنے والے انسان پر سکتہ طاری کر دیتا ہے کہ
"بے شک تمہیں میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے"
جبکہ اس طرح کے حالات کی دو صورتین ہیں یا تو یہ اللہ کی طرف سے انسان پر عذاب ہوتا ہے جو ہم سے پہلی قوموں پر لازوال آئے اور دوسری صورت آزمائش کی ہوتی ہے اس صورت میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہے۔ اور یقیناً یہ آزمائش کی صورت ہے کیونکہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ ﷺ نے رب تعالٰی کے حضور تین دعایں کی جن میں ایک دعا یہ تھی کہ مالک کریم میری امت کو قحط سے ہلاک نہ کرنا۔ تو آزمائش کی اس گھڑی میں لوگوں سے ربط کم کریں اور مالک کریم سے ربط بڑھایں۔ وہ کریم ذات و صفات کا مالک ہے وہ تو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ میرا بندہ توبہ کرے اور میں قبول کروں وہ تو بے شک ستر ماووں جتنا پیار کرنے والا ہے تو اپنا زیادہ وقت اپنے مالکِ حقیقی کی یاد میں گزریں اور رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر رب سے اپنے گناہوں پر معافی طلب کریں بے شک وہ بڑا رحیم اور معاف کرنے والا ہے۔
اس طرح کے حالات میں عقل وشعور رکھنے والے لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں کہ ہر طرف نفسہ نفسی کی سی صورتِحال ہے اور ہر کسی کو اپنی جان کی فکر پڑی ہے اور قرآن پاک میں ہے نہ کہ "بے شک انسان خسارے میں ہے سوائے ان کے جو ایمان لے آئے اور حق کی تلقین اور صبر کی تائید کرتے رہے"۔
یہ تو نشانیاں ہیں اور پھر جب قیامت کا دن آئے گا اور سب نفسا نفسی کی حالت میں ہوں گے تو وہ ہستی جن پر مر مٹنے کو جی چاہتا ہے وہ فرمائے گے یا اللہ میری امت یا اللہ میری امت۔ تو اب سوچیں ہمارا حق کیا بنتا ہے کہ جب تمام انبیاءاکرام اپنے لیے دعایں کر رہے ہوں گے ہمارے پیارے نبی ﷺ اپنی امت یعنی ہمارے لیے دعایں کر رہے ہوں گے تو اتنی رحمت والے پیغمبر ﷺ کا حق نہیں بنتا کہ ان کے احکامات کی پابندی کی جائے اور حضور سرورِ کائنات ﷺ نے جو احکام دیے ہیں ان کے مطابق زندگی گزری جائے اگر انھوں نے فرمایا ہے کہ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے تو کیوں ہم نماز پڑھنے میں کوتائی کرتے ہیں کیوں ہم ایمانداری کو اپنے معاملات میں ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے کیوں ہم حسن سلوک سے پیش نہیں آتے ان باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اس مہلک وبا نے ہر چیز کو بدل کر رکھ دیا ہے وہ خانہ کعبہ جہاں پر کبھی طواف نہ رُکا تھا ہم نے دیکھا کہ طوافِ کعبہ کو روک دیا گیا اگرچہ اس سے رب تعالٰی اور اس کے محبوب کی ذات کو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر ہم گنہگاروں کو ضرور فرق پڑتا ہے۔ مسجدیں خالی ہوگئی ہیں اور میں ایک مولوی کی بات سن رہا تھا جناب فرما رہے تھے کہ اجتماع کرنے سے کچھ نہیں ہوگا اور نہ اکھٹے ہونے سے بلکہ کندھے سے کندھا ملا کر نماز ادا کریں ایسے مولوی حضرات کو حضرت اقبال مُلا کہا کرتے تھے ان جیسوں کو وہ واقعات پڑنے چاہیے جو حضور ﷺ کے اپنے دور میں ہوئے مثلاً جب آندھی و طوفان کی سی کیفیت ہوتی تو حکم آتا کہ گھروں میں نماز پڑھو کیونکہ مسجد تک آنے میں اذیت ہوتی تو آج کل کے واقعات میں تو جان کا خطرہ بھی لحق ہے۔
اور جس کو اس وبا کے ہونے کا خدشا ہو وہ لوگوں کے نزدیک نہ آئے۔ جب حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں ایک عورت ایک موزی مرض میں مبتلا ہوئی اور اُسی بیماری کی حالت میں خانہ کعبہ کا طواف کرنے کے لیے آئی تو حضرت عمرؓ نے اُسے منع فرمایا۔ جب آپؓ کی شہادت ہوئی تو اس عورت کی بیٹی نے کہا امی آپ اب طواف کے لیے چلی جاہیں تو اس نے کہا کہ عمرؓ چلے گے تو کیا ہوا مگر رب تعالٰی تو دیکھ رہے ہیں۔
اور آخر میں عرض ہے خدارا اس مہلک وبا کرونا وائراس پر قابو پانے کے لیے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کریں اور بہتریں شہری ہونے کا ثبوت دیں تاکہ ہماری حکومت بھی چین کی طرح اس پر قابو پا لے اور اس مصیبت سے نجات ملے اور حالات معمول پر آجاہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے گھروں میں رہیں صفائی کا مکمل خیال رکھیں اور خاص کر اپنے آس پاس ان کا ضرور خیال رکھیں جن کا روزگار اس سے متاثر ہوا ہے اس قسم کے حالات میں کیا گیا صدقہ رب تعالٰی کو زیادہ محبوب ہے اور یاد رکھیں آپ نے کسی پر احسان نہیں کرنا رب کے عطا کردہ رزق میں سے دینا ہے اور شکر کریں کہ اللّٰہ تعالٰی نے آپ کو اس قابل بنایا ہے۔ یہ وقت ایک قوم بن کے کام کرنے کا ہے۔ اللہ تعالٰی اس ملک و قوم کا حامی و ناصر ہو اور اس مہلک وبا کرونا وائرس سے ساری دنیا کو محفوظ فرمائے (آمین)۔