1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Hazar Sajde Se Deta Hai Aadmi Ko Nijat

Hazar Sajde Se Deta Hai Aadmi Ko Nijat

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

اصلاح کرنے کے لیے ہر کوئی تیار ہوتا ہے کیونکہ یہ سب سے آسان عمل جو ٹھہرا۔ لہذا ہم تو متلاشی ہی آسان عمل کے ہیں۔ لیکن میرے نظریات کے مطابق کسی شخص کا لہجا کتنا ہی متاثر کن کیوں نا ہو اس وقت تک بے سود ہے جب تک وہ تمام چیزیں جن پر وہ دوسروں کی اصلاح کر رہا ہے اس کی شخصیت کی عکاسی کرتی نظر نا آئیں۔

اللہ پاک اپنے آخری کلام میں ارشاد فرماتے ہیں: "اور ہم نے انسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے"۔ یہ وہ خوب صورت آیت مبارکہ ہے جس سے میرے خیال میں مقصد حیات واضح ہوتا ہے۔ کہ ہم کو بنیادی طور پر کس لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اب اگر کوئی اس واضح مفہوم کو بھی سمجھنے سے قاصر ہے تو یہ کسی حد تک جہالت کی نشانی ہے۔

اگر ہم اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں کے بعد اللہ قادر مطلق کا شکر ادا کرنے کے لیے دن میں کچھ وقت نہیں نکال سکتے تو اس سے بڑی بدقسمتی شاید کوئی نا ہو۔ کب تک آخر ہم صرف نام کے مسلمان رہیں گے۔؟ کیا ہمارے رویوں سے اور ہمارے طور طریقوں سے ہمارا دین ظاہر نہیں ہونا چاہیے۔؟ کیا صرف مولویوں نے اسلام کا ٹھیکا لے رکھا ہے ہم نے آخر کیوں سارا کچھ ان پے چھوڑ رکھا ہے۔؟

ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کہا کرتے تھے کہ آج کل مولوی پروفیشن بن چکا ہے حالانکہ اسلام میں اس کا کوئی وجود نہیں ہر ایک کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ جماعت کروا سکے جنازہ اور نکاح پڑھا سکے لیکن ہم نے سب کچھ ان پے ہی چھوڑا ہوا ہے اور بہت سی زمہ داریوں کی طرح اس سے بھی راہ فرار اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ادھر ادھر کی باتیں سننے کی بجائے کیوں ہم قرآن پاک کو پڑھنے اور خاص کر سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جس میں دنیا کے ہر مسلۓ کا حل اللہ قادر مطلق نے رکھ دیا ہے۔ حضرت اقبال کا بہت ہی پیارا شعر ہے کہ:

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے ترک قرآں ہو کر

حالانکہ سائنس آج کل وہ سب کچھ ثابت کر رہی جو ہمیں چودہ سو سال پہلے ہی بتا دیا گیا تھا۔ اب یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم نے خود اس پر کام کرنے کی بجائے سب کچھ سائنس پر چھوڑ دیا۔

وہ اک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

کلام پاک میں ہے کہ: "اور دلوں کا سکون تو رب تعالی کے ذکر ہی میں ہے"۔ قرآن پاک میں بار بار نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس سے اس کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ اسلام میں اسے کس قدر اہم مقام حاصل ہے۔ سچے عاشق رسول (ﷺ) حضرت اقبال نے کہا تھا:

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نا کوئی بندہ رہا نا کوئی بندہ نواز

نماز ہی وہ عمل ہے جس میں کھڑا ہوتے ہی محمود و ایاز کا فرق باقی نہیں رہتا۔ نماز ہمیں اللہ قادر مطلق کی یاد دلاتی ہے اور اللہ قادر متلق کے قریب لے جاتی ہے اور بے شک یہ بہتریں عمل ہے۔ اور بنیادی طور پر یہ ذہنی سکون کا باعث بنتی ہے۔ نماز ہی وہ موقع ہے جس میں ہم اپنے خالق و مالک کے قریب جا کر اپنے تمام دکھ اسے سنا سکتے ہیں اور اپنی بات منوانے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ایک طرف قرآن پاک کو ہماری راہنمائی کے لیے نبی کریمﷺ پر نازل فرمایا اور دوسری طرف ہمیں چھوٹ دے دی کہ جاؤ میں نے تمہیں آزادی دی جس طرح چاہو زندگی گزرو۔ سیدھے راستے پر چلو گے اور میرے احکامات کی پیروی کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے اور شیطانی راستے پر چلو گے اور برے کام کرو گے تو گمراہ ہو جاؤ۔ لیکن یہ یاد رکھنا کہ تمہارے برے اعمال سے میں راضی نہیں ہوں گا۔ تو اللہ تعالیٰ کی نارضگی کا مطلب روز حشر جس دن کسی کا سایہ میسر نا ہو گا سوائے الله قادر مطلق کے اس کے پاک سایے سے محرومی ہے۔ لیکن وہ قادر مطلق ہے رحمن ہے رحیم ہے وہ جس کو چاہے معاف کر دے اور جس کو چاہے سزا دے کیونکہ وہ ہر شے پر قادر ہے۔

ذرا سوچیں کہ کیا ہم اپنے خالق و مالک کے لیے دن میں کچھ وقت نکال کے پانچ وقت اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز نہیں ہو سکتے۔ اس خالق و مالک کے لیے جس نے ہمیں طرح طرح کی نعمتوں بخشیں ہیں۔ مشکلات تو زندگی کا حصہ ہیں مگر اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو آپ محسوس کریں گے کہ کتنے لوگوں سے آپ کی زندگی بہتر ہے۔ تو کیا تقدیر کے لکھے میں راضی رہنا اور شکوے شکایات سے بچے رہنا عقل مندی نہیں۔ کیونکہ تقدیر میں جو لکھ دیا گیا ہے وہ ہو کر رہے گا اور تقدیر پر ایمان بھی ضروری عمل ہے۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ صحابہ اکرام تقدیر پر باعث کر رہے تھے تو آپﷺ اچانک تشریف لے آئے تو جب آپﷺ کو بحث کا موضوع معلوم ہوا تو آپﷺ کو شدید غصہ آیا اور آپﷺ نے دو دفعہ فرمایا میں تمہیں اس سے روکتا ہوں کہ اس کے بارے میں بحث نا کیا کرو۔ ڈاکٹر اسراحمد مرحوم کہا کرتے تھے تقدیر پر بحث گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔

سجدوں سے تیرے کیا ہوا صدیاں گزر گئی

دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر

دل سے ادا کیے گئے سجدے کا بھی اپنا مزہ ہے۔ جب انسان اللہ قادر مطلق کے حضور سجدہ میں جاتا ہے تو عجیب سا احساس ہوتا ہے اور انسان عارضی دنیا کے اس دھوکے سے چند لمحوں کے لیے اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتا ہے۔ بنیادی طور پر تو ہم سب جانتے ہیں کہ یہ دنیا ایک دھوکہ ہے اور ایک دن فنا ہونے والی ہے اور ہم سب نے ایک نا ایک دن اس مالک کریم کی طرف لوٹ کر جانا ہے تو پھر آخر کیوں ہم آذان کی آواز سن کر اس کی طرف رجوع نہیں کرتے؟ کیوں ہم غفلت میں ڈوبے رہتے ہیں؟

اگر فرض نماز کی معافی کہیں ہوتی تو اسلام بچانے والے نواسا رسولﷺ امام اعلیٰ مقام امام حسینؓ کو کربلا کے میدان میں ہوتی۔ اگر انھوں نے میدان جنگ میں فرض نماز نہیں چھوڑی تو ہم دنیاوی کاموں میں کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ اس پے سوچنے کی ضرورت ہے۔ کسی کا جنازہ اور خاص کر کسی اپنے کا جنازہ پڑھتے وقت جو کیفیت انسان میں پیدا ہوتی ہے اور حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ آخر کار جو بھی کر لیں ہماری آخری منزل بھی یہی ہے اس کیفیت کو عملی طور پر اپنانے کی ضرورت ہے۔

روز و شب کے میلے میں غفلتوں کے مارے ہم بس یہی سمجھتے ہیں

ہم نے جس کو دفنایا

بس اسی کو مرنا تھا

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اور اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی محبت نصیب فرمائے اور دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرمائے۔ (امین)

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Neela Thotha

By Amer Farooq