Waseb Zado Qayamat Ki Ghari Hai Waseb Mein
وسیب زادو!قیامت کی گھڑی ہے وسیب میں
سوجھل دھرتی واس کی زندہ شعور سنگت بیدار ہے ان دوستوں میں زیادہ تر کے حالات فاضل پور و راجن پور کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں جیسے ہی ہیں پھر بھی دکھ کی ان قیامت خیز گھڑیوں میں وہ اپنے مسائل اور پیاروں کی مشکلات بھلاکر وسیب واسیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
شاہنواز خان مشوری اور عثمان کریم بھٹہ ایڈووکیٹ اس سنگت کی رہنمائی کررہے ہیں۔ متاثرین کے لئے دو وقت کے کھانے کی فراہمی، علاج معالجے کے لئے فری میڈیکل کیمپ جہاں شخصیات اور نجی اداروں کے تعاون سے فوری ضرورت کی ادویات اور ڈاکٹر صاحبان موجود ہیں۔
شاہنواز خان مشوری کی محنت و لگن اور وسیبی سیاسی کارکنوں اور اہل دانش کے مرکز ڈریٹ ہوٹل کو بھی سیلابی پانی سے نقصان ہوا لیکن یہ وسیب زادہ متاثرین کے ساتھ پرعزم طور پر کھڑا ہے۔
ہمارے عہد کے معروف شاعر اصغر گورمانی نے ذاتی مشکلات کو آڑے نہیں آنے دیا۔ دوستوں کا گروپ بنایا ایک ایک دروازے پر دستک دی۔ وسوں زادوں نے اصغر گورمانی کو مایوس نہیں کیا۔ لوگ حسب استطاعت ان کے گروپ کے توسط سے مدد کررہے ہیں۔
آفتاب اویڑہ اور ان کی سنگت اپنی جگہ مصروف ہے۔ متاثرین کے لئے کھانا پکاکر بھجوایا جارہا ہے۔ آفتاب اویڑہ کی سنگت کے چند دوست تونسہ اور کچھ فاضل پور میں مقامی باہمت نوجوانوں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔
ہمارے دوست شاہد سلیم بزدار کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ وہ انفرادی اور جماعتی ساتھیوں کے ساتھ مل کر وسیب زادہ ہونے کا حق ادا کررہے ہیں۔
سیلابی پانی اور قبل ازیں طوفانی بارشوں دونوں نے برستے اور اجاڑتے وقت نام و نسب، ذات برادری، سیاسی جماعت اور عقیدہ بالکل نہیں پوچھا۔ طوفانی بارشوں نے جل تھل کردیا۔ سیلابی پانیوں نے سینکڑوں بستیاں اجاڑدیں۔
ہماری عزیزہ سیدہ زہرا بتول نقوی و سیدہ گل زہرا رضوی اور کچھ دیگر عزیزات بھی سرگرم عمل ہیں۔ مردوزن وسیب زادوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کیلئے جس میں جتنی استطاعت ہے اسے تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
سیدہ زہرا بتول نقوی سیدہ گل زہرا رضوی اور دیگر عزیزات کا وسیب کے محروم لوگوں کے لئے فعال ہونا خوش آئند عمل ہے۔ سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کی خواتین اور بچیوں کے مسائل کا زیادہ بہتر ادراک یہی عزیزات ہی کرسکتی ہیں۔ سیاسی و قوم پرست جماعتوں میں فعال خواتین کو بھی میدان عمل میں اترنا چاہیے۔
ملتان سے ہماری قابل احترام بہن ڈاکٹر زری اشرف سماجی خدمات کا بھلا ریکارڈ رکھتی ہیں۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ وسیب پر قیامت ٹوٹے او وہ گھر بیٹھی رہیں یہ سوچ کر کہ اگر کلینک نہ کھلا تو اتنا مالی نقصان ہوگا۔
ڈاکٹر زری اشرف نے ہمت کی۔ مختلف تنظیموں اور اپنے دوستوں کے تعاون سے تونسہ سمیت متعدد علاقوں میں میڈیکل کیمپ لگارہی ہیں۔ ادویات تقسیم کی جارہی ہیں۔
قصور میں بسلسلہ ملازمت مقیم عزیز دوست فرخ عباس بھی اپنی تنظیم کے ساتھیوں کے ساتھ سرائیکی وسیب کے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے سرگرم عمل ہیں۔
لیاقت پور میں وسیب دوست گروپ اور ایس ڈی پی کے لالہ محمد اقبال بلوچ اور اظہر خان گوپانگ نے سیلاب متاثرین کی بحالی میں مدد فراہم کرنے کے لئے امدادی کیمپ لگارکھا ہے۔ اہلیان لیاقت پور کو آگے بڑھ کر ان سے تعاون کرنا چاہیے۔
امریکہ میں مقیم قوم پرست رہنما اور دانشور برادر عزیز عبید خواجہ اور خانپور میں مقیم ان کا خاندان بھی وسیب زادوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لئے سرگرم عمل ہے۔
ظہور دھریجہ اور ان کے ساتھی بھی بساط مطابق متاثرین کا ہاتھ بٹانے میں مصروف ہیں۔ لالہ ظفر اقبال جتوئی، سئیں عبداللہ بلوچ کی سنگت بھی تندہی سے امدادی کام کرنے والوں کے لئے وسائل کا بندوبست کررہی ہے۔
ملتان میں ہمارے درجہ اول کے کامریڈ منیرالحسینی اور عزیزم سید سجاول عباس نقوی چند دوستوں کو ساتھ ملاکر متحرک ہوئے ہیں۔ منیرالحسنی سماجی خدمت کی عمومی شہرت رکھتے ہیں۔ لوگ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں۔
سید سجاول عباس نقوی اور ان کے دوستوں کا گروپ یونیورسٹی طلبا پر مشتمل ہے۔ اہل ملتان کو ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
دکھ کی اس گھڑی میں اپنی وسوں کے درد کو سمجھنا اور درد بٹانا ہی انسانیت کا حق ادا کرنا ہے۔
مریدین سے نسل در نسل صدیوں سے نذرانے وصول کرنے والے پیر مخدوم، سید نجانے کہاں غائب ہیں کوئی انہیں نیند سے بیدار کرکے بتائے ضرور کہ "پیر سائیں قبلہ مخدوم صاحب حضور شاہ جی انگنت صدیوں سے آپ کے خانوادوں کو پالتے پوستے اور اپنی ہڈیوں کے گودے سے آپ کی گاڑیوں کو پٹرول فراہم کرنے والے مریدوں کے خاندان اجڑ گئے ہیں۔
کچھ بینک اکائونٹس اور تجوریوں کو ہوا لگوایئے۔ یہ مرید اور وسوں زادے اور ان کے خاندان زندہ رہے تو آپ " تام جھام " بھی سلامت رہے گا، گڈیاں دوڑتی رہیں گی۔ آپ کے بچے بچیاں اسمبلیوں میں رونق لگائیں گے
خاکم بدہن اگر موجودہ حالات کی کوکھ سے کسی بڑے انسانی المیہ نے جنم لیا تو آپ کی پیری مخدومی اور ساداتی کو تو کچھ فرق نہیں پڑے گا بس بزنس متاثر ہوگا۔
لاکھوں روپے لے کر ایک سوا ایک گھنٹہ خطاب کرنے والے ذاکرین ہوں یا مولوی صاحبان ان کو بھی کوئی یہ ضرور بتائے کہ حضور سائیں! لینے والے ہاتھ سے دینے والا ہاتھ افضل ہوتا ہے۔ آٰج وقت آن پڑا ہے آپ کے ان عقیدت مندوں کے خاندانوں پر جو سال بھر کی محنت اور جمع جوڑی سے آپ کے لئے نذر و نیاز اور لنگر کا بندوبست کرتے ہیں
اب حوصلہ کیجئے اپنے جمع شدہ مال سے کچھ خمس ہی نکال دیجئے ہمارے وسیب زادوں کے لئے۔
ملتان ہی کے کاظمی سادات کے خانوادے (حضرت سید احمد سعید کاظمیؒ کا خاندان) کی خدمت میں عرض ہے وسیب میں آپ کا بہت احترام ہے اپنے عقیدت مندوں اور شاگردوں کو حکم دیجئے کہ وہ دکھی انسانیت کی خدمت و دلجوئی کے لئے گھروں سے نکلیں۔
حضرت شاہ شمس سبزواریؒ و سیدی حضرت یوسف شاہ گردیزؒ سے نسبی تعلق رکھنے والے خاندانوں کے ساتھ ساتھ گیلانیوں، قریشیوں کے خاص و عام سبھی کو اس وقت وسیب کے متاثرین سیلاب کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔
ہمارے لائق احترام دوست اور معروف بلڈر جناب قاری عبدالرئوف قریشی کو چاہیے کہ ملتان اور وسیب کے بلڈرز اور پراپرٹی ڈیلروں کو اکٹھا کریں انہیں وسیب میں سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کی مدد کے لئے متوجہ کریں۔
طوفانی بارشوں اورسیلاب سے ملک کے دوسرے حصوں کی طرح سرائیکی وسیب کے تین اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازی خان اور راجن پور بری طرح بلکہ بہت بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اجڑی بستیوں، ملبہ بنے گھروں اور سیلاب میں بہہ جانے والے مال مویشیوں کے یہ مالک اب مجبور و بے نوا ہیں
یقیناً ان کی خدمت اور بحالی کے لئے وسیب زادے فعال ہوئے ہیں لیکن اس سے زیادہ فعالیت کی ضرورت ہے۔ امدادی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لئے وسائل کی بھی
سرائیکی وسیب کے چھ ساڑھے چھ کروڑ وسیب زادے اگر روزانہ 2روپے فی کس بھی امدادی کام کرنے والوں کو فراہم کریں تو لگ بھگ 12کروڑ روپے روزانہ جمع ہوسکتے ہیں۔
چلیں محدود انداز میں اس رقم کو 10کروڑ سمجھ لیجئے، چھ ساڑھے چھ کروڑ وسیب زادے صرف 2روپے روزانہ ہی عطیہ کریں تو 10کروڑ روپے ایک ماہ میں لگ بھگ 3 سو کروڑ روپے اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ گو یہ دوسو ارب روپے کے مالی، املاکی اور اجناس اور مال مویشی بہہ جانے کے نقصان کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں پھر بھی بہت کچھ ہوگا۔
عزم و حوصلہ، دردمندی، احسان زندہ ہو تو۔ یہ سلسلہ آخری خاندان کی بحالی تک قائم رکھا جاسکتا ہے۔