Toheen e Mazhab Ke Muqadmat, Hosh Ke Nakhun Lijye
توہین مذہب کے مقدمات، ہوش کے ناخن لیجئے
گزشتہ دوتین دن سے ہر شخص دوسرے سے یہ پوچھتا دیکھائی دے رہا ہے "اب کیا ہوگا؟" تقسیم در تقسیم کا شکار معاشرے میں یہ سوال ویسے تو زندگی کی علامت ہے۔ خوشی اس بات پر ہے کہ چلو بہت سارے نہیں تو کم از کم ایک سوال تو پوچھا جارہا ہے۔
ہمارے برادر عزیز سید انجم رضا ترمذی کے بقول "ایک انسانی معاشرہ مختلف عقائد و نظریات رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے ایک ہی جیسے افراد کہیں بھی نہیں پائے جاتے اور یہ ممکن بھی نہیں کیونکہ معاشرے کا اصل حسن ایک دوسرے کے عقیدے، سیایس نظریے اور خیالات کے احترام میں ہے۔ اسے ہی باہمی رواداری اور برداشت کہتے ہیں یہ سب وہ وصف ہیں جو چشم زد میں بہتر ہوتے ہیں نہ ایک دم بگڑتے ہیں البتہ یہ حقیقت ہے کہ ایک مہذب انسانی معاشرہ میں نسل در نسل خوبیوں سے ہی روایات و اقدار تشکیل پاتی ہیں۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ گزشتہ چوہتہر پچھتر برسوں میں عقائد و سیاسی نظریات کے اختلاف، تنگ نظری، گھٹن، تعصب اور عدم برداشت کو بڑھاوا دیا گیا۔ خوبیوں کو خامیوں میں بدلنے کی کاریگری نے ایسی صورتحال پیدا کردی ہے کہ فی زمانہ ہر صاحب فہم یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ معاشرے کی بہترین پیمانے پر تربیت اور رہنمائی کرنے کے حوالے سے ہمارے اہل دانش خاموش کیوں ہیں۔ کیا وہ خود بھی اسی عدم برداشت، گھٹن اور تعصب کے اسیر ہوگئے ہیں؟ ایسا ہے تو یہ خطرناک صورتحال ہے۔ مداوے اور اصلاح کے لئے جتنی تاخیر سے مزاحمت شروع ہوگی نقصان بڑھتا جائے گا"۔
سید انجم رضا کے ان خیالات کی دستک نے یاد دلایا کہ فرات کنارے ا ترنے والے محبوبان خدا کے قافلہ سارا شہید مظلوم امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں اپنے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا تھا "لوگو! یاد رکھو جبرواستحصال اور ظلم کے خلاف جتنی تاخیر سے اٹھو گے قربانیاں اتنی ہی زیادہ دینا پڑیں گی"۔
فی الوقت تو اس معاشرے میں عمومی صورتحال یہ ہے کہ ہر شخص اور طبقہ خود کو حق پر اور دوسرے کو "ناحق"، غلط، گمراہ اور ضمیر کی کسک سے محروم سمجھتا ہے۔
اس کی ایک وجہ تو بہرطور یہی ہے کہ عقیدوں، سیاسی نظریات اور شخصیت پرستی میں تقسیم ہوئے معاشرے کا ہر گروہ اپنی اپنی بند گلی میں کھڑا یہی سمجھ رہا ہے کہ یہی گلی کل جہان اور میدان ہے
جبکہ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ اپنی اپنی فہم کی بند گلی سے باہر نکل کر کسی کھلی فضا میں جمع ہوا جائے ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھا جائے، فکری اختلاف پر مکالمہ اٹھایا جائے۔ ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو تقسیم کا باعث بنے اور پھر اس سے عدم برداشت اور نفرتوں نے جنم لیا۔ ہاں یہ غور طلب بات ہے کہ کیا چوہتر پچھتر سال سے بھرا گیا زہر فقط مکالمے کے تریاق سے ختم ہوسکے گا؟
ویسے علاج سادہ سا ہے وہ یہ کہ ہم میں سے ہر شخص خود کو عقل کل اور اپنی فہم کو حرف آخر سمجھنا چھوڑدے۔ شعوری طور پر یہ سمجھ لے کہ افکار اس پر تمام ہوتے ہیں نہ دین ان پر ختم، زندگی اور نظریات دونوں کو آگے بڑھنا ہے ان کے راستے میں حائل ہونے والے تاریخ کا نہیں تاریخ کے کوڑے دان کا رزق بنتے ہیں۔
اس طویل تمہید کی وجہ یہ آن پڑی کہ چند دن قبل مسجد نبویؐ میں ہوئی ہلڑبازی اور مخالفانہ نعروں نے ہمارے معاشرے میں ایک نئی تقسیم کی بنیاد رکھ دی ہے۔
ایک فریق اس عمل کی سیاسی تاویلات کے ساتھ ساتھ اسے عقیدے کی عینک سے دیکھنے اور درست قرار دینے میں پیش پیش ہے دوسرے فریق میں دو طبقات ہیں ایک کا خیال ہے کہ جو ہوا درست نہیں ہوا، داخلی سیاست کے اختلافات ہوں یا گند، ان سے اپنے داخلی میدان میں ہی کھیلنا بنتا ہے۔
بیرون ملک خصوصاً مقدس مقامات پر اپنی فہم کے مخالف لوگوں کو دیکھ کر ہلڑبازی کرنا یا مخالفانہ نعرے لگانا کسی بھی طرح درست نہیں۔
اس دوسرے فریق میں ایک طقبہ اسے مذہبی جذبات کی عینک سے دیکھ رہا ہے (واقعی مذہبی جذبات ہیں یا سیاسی ضرورت؟) بدقسمتی سے بات مذہبی جذبات کی عینک سے دیکھنے سے آگے بڑھ گئی ہے۔ اس افسوسناک واقعہ کی بنیاد پر فیصل آباد اور اٹک میں توہین مذہب کی دفعات کے تحت دو مقدمات (دونوں جگہ ایک ایک مقدمہ) درج ہوچکے ہیں۔
قومی اسمبلی کے ایک سابق رکن راشد شفیق کی گرفتاری اس وقت عمل میں لائی گئی جب وہ عمرہ کرکے اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچے۔ موصوف سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کے بھتیجے ہیں۔ انہوں نے مسجد نبویؐ کے افسوسناک واقعہ کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں نہ صرف اس واقعہ کا دفاع کیا بلکہ چند مزید باتیں بھی کیں جو یہاں لکھنا ممکن نہیں۔
اب وہ گرفتار اور ریمانڈ پر پولیس کے پاس ہیں۔ اٹک اور فیصل آباد میں درج ہونے والے 295سی اور دیگر دفعات کے تحت دونوں مقدمات میں سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر داخلہ شیخ رشید، سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری سمیت 150 افراد نامزد کئے گئے۔
بہت ادب کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ توہین مذہب کے الزام میں مقدمات درج کرائے جانے کی تائید نہیں کی جاسکتی۔ اس سے ایک نئی تقسیم کا دروازہ کھلے گا جو پہلے سے موجود تقسیم کے مقابلہ میں ہزارہا گنا زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ بعض قانون دان بتارہے ہیں کہ بیرون ملک ہوئے کسی واقعہ پر اگر اس میں پاکستانی شہری ملوث ہوں تو پاکستان میں مقدمہ درج ہوسکتا ہے۔
سوال یہ ے کہ کیا یہ مقدمہ کوئی بھی شخص درج کرواسکتاہے یا یہ حکومت کا اختیار محض ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ اگر مقدمہ درج ہی کروانا تھا تو پھر توہین مذہب کی بجائے پاکستان کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے الزام میں درج کرایا جاتا (ذاتی طور پر تحریر نویس اس کے حق میں بھی نہیں) اصل میں تو یہ مقدمہ بازی اور خصوصاً توہین مذہب کی دفعات کو ہتھیار بنانے کی روش کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو ہوا وہ درست تھا۔ وہ قطعی طور پر نامناسب اور روایات و اقدار سے متصادم طرزعمل تھا۔ اس کی حوصلہ افزائی یا درست قرار دینے کے دلائل بھی اتنے ہی بھونڈے ہیں جتنے توہین مذہب کی دفعات کے تحت مقدمات درج ہونے کے حق میں دیئے جانے والے دلائل۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ فیصل آباد میں درج ہونے والی ایف آئی آر وفاقی وزیر رانا ثناء اللہ خان کے ایما پر درج ہوئی۔ مقدمہ درج ہوئے 48گھنٹے گزرگئے انہوں نے اس حوالے سے اپنی پوزیشن واضح نہیں کی بلکہ اس عرصہ میں ان کی جو دو گفتگوئیں سامنے آئیں ان سے یہ تاثر پختہ ہوا کہ وہ بھی ایسا ہی چاہتے تھے۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ صورتحال تسلی بخش نہیں خطرناک ہے۔
وجہ اس کی یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے منشور اور نظریات پر سیاست نہیں کرتیں بلکہ مخالف کے لئے نفرت بھرے جذبات کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ یہ سلسلہ آج کا نہیں روز اول (قیام پاکستان سے) جاری و ساری ہے۔
گو ہر دور میں ان رویوں پر تنقید ہوئی اب بھی ہورہی ہے مگر انتہائوں میں تقسیم معاشرے میں چند دیوانوں کی بات کون سنتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ آج جو جماعت توہین مذہب کے الزام اور مقدمات کا سامناکررہی ہے اس نے بھی 2017ء اور پھر 2018ء کے قومی انتخابات میں (ن) لیگ کے خلاف توہین مذہب اور توہین ختم نبوتؐ کے کارڈ کھیلے تھے اور یہ کوئی پچھلی صدی کی نہیں چند سال قبل کی بات ہے۔
تب جناب عمران خان، شیخ رشید اور ان کے دوسرے ساتھی اپنی تقاریر سے ایسا ماحول بناتے رہے جس سے عدم برداشت بڑھی۔ افسوس کہ آج انہیں ویسی ہی صورتحال کا سامنا ہے جس سے انہوں نے (ن) لیگ کو دوچار کیا تھا۔
ہماری دانست میں وہ عمل درست تھا نہ اب درج کرائے جانے والے مقدمات درست ہیں۔ آخری بات یہ ہے کہ نفرتوں کے بڑھاوے اور مذہبی جذبات سے کھیلنے کی بجائے عدم برداشت کے خاتمے کے لئے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ورنہ جو آگ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے یہ سب کے دامن اور گھروں کو جلاکر خاکستر کردے گی۔