Tareekh Ke Doosre Auraq Par Bhi Kuch Likha Hota Hai
تاریخ کے دوسرے اوراق پر بھی کچھ لکھا ہوتا ہے
لیفٹ نیم لیفٹ اور پیپلزپارٹی ان سب کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے پچھلی صدی کے اس نصف کی تاریخ کو لکھنے لکھوانے میں کوئی دلچسپی نہیں لی جب اس ملک نے تین مارشل لاء بھگتے۔ ایوب، یحییٰ، ضیاء الحق۔ چوتھے فوجی آمر پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ تو پچھلی صدی کے آخری سے پہلے سال کے اکتوبر میں کیا لیکن ان کا اقتدار رواں صدی کی پہلی دہائی کے آٹھویں برس تک جما اور خوب جما۔
کچھ بزرگ اہل دانش، چند سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے اپنی آپ بیتیوں میں ان ماہ و سال کا ذکر ضرور کیا جو انہوں نے دیکھے بھالے مگر خود کی آپ بیتی میں ذات سے آگے کتنی باتیں لکھی جاسکتی ہیں۔
البتہ لیفٹ، نیم لیفٹ، پیپلزپارٹی اور ان تینوں کے متاثرین سے دوسری طرف رجعت پسندوں (اسلام پسند کہلانے والے) نے لکھا اور خوب تڑکہ لگا کر حقائق کو مسخ کیا۔ پچھلے کم از کم 40 برسوں سے ان کا کہا لکھا ہی اچھالا جاتا ہے یا پھر وہ منظم پروپیگنڈہ ہے جو ریاستی قوتوں نے کروایا اسے تو ایک بڑا طبقہ ایمان کے ساتویں رکن کے طور پر پوجتا ہے۔
خیبر پختونخوا میں اے این پی نے کچھ کوشش کی سیاسی جدوجہد کو مرتب کروانے کی غالباً باچا خان سنٹر سے کچھ کتب شائع بھی ہوئیں۔ کچھ دوستوں نے ذاتی طورپر بعض موضوعات پر لکھا یا کسی کتاب کے جواب میں اس میں ایک بڑا نقصان یہ سامنے آیا کہ تاریخ سے زیادہ ذاتی پسندو ناپسند اور نفرت و محبت کتاب کے اوراق پر دوڑتے بھاگتے دیکھائی دیتے ہیں۔
تمہیں طویل ہوگئی اور تمہید کی وجہ عزیزم محمد عامر ہاشم خاکوانی کی ایک حالیہ تحریر ہے جس میں انہوں نے بہت ساری باتوں کے درمیان یہ بھی کہا کہ بھٹو مخالف پی این اے کی تحریک ملکی تاریخ کی سب سے بڑی احتجاجی تحریک تھی۔
یہ بھی کہا کہ لیفٹ اور پیپلزپارٹی والے الزام تو لگاتے ہیں کہ پی این اے کی تحریک امریکہ سپانسرڈ تھی ثبوت نہیں دے سکے۔ عزیزم عامر خاکوانی بھی دوسرے لکھنے والوں کی طرح اپنا خاص فہم رکھتے ہیں ان کا جھکائو ہمیشہ پیپلز پارٹی مخالف اسلام پسندوں کی طرف رہا وہ جماعت اسلامی ہو یا پھر عمران خان یا پھر دونوں کے درمیان کی کوئی مخلوق۔
خیر ان کے اٹھائے دو سوالوں کے جواب میں یہ عرض کردوں کہ پی این اے کی تحریک ہی نہیں بلکہ یو ڈی ایف (یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ) کو پاکستان قومی اتحاد میں تبدیل کرنے کی سیاسی کوششوں کے پیچھے بہرطور امریکہ اور مغرب کی سفارتکاری رہی۔
یہ کھیل اصل میں جولائی سے ستمبر 1976ء کے درمیان اس وقت کے امریکی سفیر کی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقاتوں کے بعد شروع ہوا۔ امریکی خطے میں خصوصاً افغانستان اور ایران میں بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے کے تناظر میں پاکستان کے پرجوش تعاون کے طلبگار تھے۔
بھٹو کے انکار کے بعد ان کے مخالفین کو یکجا کرنے کا مشن شروع ہوا اس میں آئی ایس آئی والے جنرل غلام جیلانی خان (یہ صاحب بعد میں پنجاب کے گورنر بھی بنے) اور افغان جہاد کے دنوں میں امریکیوں سے متعارف ہوئے۔ جنرل فضل حق کا بنیادی کردار تھا۔ پاکستان قومی اتحاد نامی سیاسی الائنس کے اعلان کے لئے مسلم لیگ ہائوس ڈیوس روڈ پر منعقد ہونے والے اجلاس کے دوران جہاں مسلم لیگ ہائوس کے ایک کمرے میں چند غیرملکی سفارتکار موجود تھے وہیں قریب کے ایک ہوٹل میں متعدد سفیروں کے علاوہ جنرل جیلانی کی موجودگی پر بھی سوال اٹھے تھے۔
امریکی سمجھتے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو افغانستان اور ایران میں تبدیل ہوتے سیاسی منظرنامے میں ان کے لئے معاون ثابت نہیں ہوسکتے۔ پی این اے کی تحریک کے دوران امریکہ برطانیہ اور سعودی عرب کے سفارتکاروں کا پرجوش کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ریاض الخطیب نامی سعودی سفیر کے بارے میں صاف کہا جاتا تھا کہ وہ امریکی ایجنڈے کے مطابق معاملات کو دیکھتے اور آگے بڑھاتے ہیں۔
اس تحریک میں عالمی ذرائع ابلاغ کے متعدد بڑے ادارے بی بی سی سمیت جس طرح تحریک کے حق میں اور بھٹو کے خلاف پروپیگنڈے میں پیش پیش تھے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں یہی صورت امریکی ذرائع ابلاغ کی رہی۔ پی این اے کی تحریک کے دوران عالمی ذرائع ابلاغ کی بھٹو مخالف رہنمائوں کے لئے ہمدردی ویسی ہی تھی جسی بعد کے برسوں میں افغانستان میں لڑی گئی سوویت امریکہ جنگ جسے ہمارے ہاں جہاد افغانستان کے نام پر فروخت کیا گیا، جہاد کے برسوں میں یہ اطلاعاتی ادارے افغان جنگجوئوں کے ترجمان بنے ہوئے تھے۔
کسی حکومت کے خلاف اس کے مخالفین کی تحریک کو دامے درمے سخنے سپورٹ کرنا بھی تو سرمایہ کاری ہی ہے۔ اس بھٹو مخالف تحریک میں سرمایہ تو بہرطور استعمال ہوا اسلام پسند کہتے ہیں کہ سرمایہ دینی جذبہ سے عام آدمی سے تاجروں اور سرمایہ کاروں نے فراہم کیا جبکہ کچھ لوگ اس وقت بھی امریکی سفارتکاروں اور پی این اے کے بعض لیڈروں میں لین دین کے معاملات پر بات کررہے تھے۔
مثال کے طور پر پی این اے کے سیکرٹری جنرل رفیق احمد باجوہ کے خلاف جماعت اسلامی کی کامیاب سازش اور انہیں ہٹواکر ان کی جگہ پروفیسر غفور احمد کو پی این اے کا سیکرٹری جنرل بنوانے کا پس منظر کیا تھا۔ باجوہ نے مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے بعض رہنمائوں پر امریکہ اور سعودی سفیر سے مالی اعانت برائے تحریک لینے کا الزام پی این اے کے اجلاس میں لگایا تھا پھر جماعت اسلامی نے باجوہ بھٹو ملاقات کروادی۔ جہاز کی ٹکٹ اور بورڈنگ کارڈ بطور ثبوت سامنے لائے گئے۔ حالانکہ دونوں ثبوت پیاسی نامی تنظیم کے گھڑے ہوئے تھے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بظاہر انتخابی دھاندلیوں کے خلاف شروع ہوئی اس تحریک میں نظام مصطفیؐ کا جذباتی نعرہ شامل کرنا (پی این اے کے 32یا 33 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ میں نظام مصطفیؐ کا ذکر ہی نہیں تھا) منصوبہ کا حصہ تھا۔ سبھی اچھی طرح سمجھتے تھے کہ بھٹو مخالف سیاسی تحریک میں اسلام کو شامل کئے بغیر کامیابی نہیں مل سکتی۔
مکرر عرض کروں جولائی سے ستمبر 1976ء کے درمیان امریکی سفیر کی ذوالفقار علی بھٹو سے متعدد ملاقاتیں اور چند دوسرے معاملات اس وقت کی نسل کے سامنے ہیں یہ وہی ماہ و سال ہیں جب اس سے چند برس قبل تیسری دنیا اور اسلامی بلاک بنانے کی باتیں ہوئیں۔
تیل پیدا کرنے والے ممالک نے تیل کو بطور ہتھیار برتا۔ عالمی اسلامی بینک قائم کرنے کی تجویز آئی۔ ان تجاویز کے خالقین کون تھے شاہ فیصل، بھٹو، قذافی، عیدی امین وغیرہ۔ تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے امریکہ کو جب جہاں موقع ملا اس نے ان کرداروں کو چن چن کر رخصت کیا۔
رخصتی کا سامان کرنے سے قبل ان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم منظم کی گئی۔ پاکستانی سیاست میں امریکی سرمایہ کاری کا اولین ثبوت 1970ء کے انتخابات میں سامنے آیا جب امریکہ نے ہمارے صالحین کی مالی اعانت کی اور میاں طفیل محمد نے انتخابات کے بعد شکریہ کا خط لکھا۔ (اس اعانت اور شکریہ کے خط کی تفصیل بزرگ دانشور سید علی جعفر زیدی اپنی آپ بیتی میں لکھ چکے)
بھٹو کے بعد پاکستانی ریاست اور نظام دونوں جس طرح امریکی کٹھ پتلی کی طرح ناچے یہ کس سے پوشیدہ ہے؟ امریکہ سمیت پوا یورپ ان اسلام پسندوں کا ہمنوا تھا جو بھٹو کے خلاف تحریک چلارہے تھے۔
بعد کے برسوں میں جو اسلام پسند دھڑے جہادی کاروبار میں شریک ہوئے وہ امریکیوں کے محبوب کا درجہ پاگئے۔ ہم سبھی چونکہ تاریخ کو طالب علم کی بجائے اپنی اپنی سیاسی پسندوناپسند کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اس لئے اپنی بات کو درست اور دوسرے کی بات کو یکسر غلط قرار دے دیتے ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ پی این اے کی تحریک یقیناً ایک بڑی تحریک تھی یہ کہنا کہ یہ ملک کی سب سے بڑی تحریک تھی اس سے اتفاق ممکن نہیں۔ میری رائے میں اہداف حاصل نہ کرسکنے کے باوجود ایم آر ڈی کی جنرل ضیاء مخالف تحریک اس ملک کی بڑی احتجاجی تحریک تھی۔