Syed Abu Al Hassan Imam Ali Ibn Abi Talib Karramallahu Wajh Ul Kareem
سید ابوالحسن امام علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم
علامہ شیخ کمال الدین محمد ابن طلحہ قریشی شافعی (امام شافعی) اپنی تصنیف "مطالب السؤل فی مناقب آلِ رسولؐ" میں رقم طراز ہیں "امام علی ابن ابی طالبؑ فصاحت و بلاغت میں اس مقام کا درجہ رکھتے ہیں جن کے گردِ قدم تک پہنچنا ناممکن ہے"۔
علامہ ابو حامد عبدالحمید ابن ہتہ (مصری) کی رائے میں "امام علی ابن ابی طالبؑ کا کلام خالق کے کلام کے نیچے اور مخلوق کے کلام سے بالاتر ہے اور آپ ہی سے دنیا نے خطابت و بلاغت کے فن کو سیکھا"۔
19 رمضان کی نماز فجر کے مرحلہ میں مسجد کوفہ میں ابن مجلم کی زہر آلود تلوار کے وار سے زخمی ہوئے اور 21رمضان المبارک کو خالق حقیقی سے ملاقات کے لئے روانہ ہوگئے۔
شہید محراب و منبر امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم شخصی عداوت پر نہیں اپنی عدالت (انصاف) پر شہید ہوئے۔
سید ابوالحسن امام علیؑ فرماتے ہیں "دیکھو اپنے ان سرداروں اور بڑوں کا اتباع کرنے سے ڈرو جو اپنی جاہ و حشمت پر اکڑتے اور اپنے نسب کی بلندیوں پر غرہ کرتے ہیں۔ یہی لوگ تو عصبیت کی عمارت کی گہری بنیاد، فتنہ کے کاخ و ایوان کے ستون اور جاہلیت کے نسبی تفاخر کی تلواریں ہیں"۔
"علیؑ کو فنا ہونے والی نعمتوں اور مٹ جانے والی لذتوں سے کیا واسطہ، یہ دنیا تو میرے نزدیک اس پتی سے بھی زیادہ بے قدر ہے جو ٹڈی کے منہ میں ہو اور وہ اسے چبارہی ہو"۔
امام علیؑ فرماتے ہیں "حسد رنج میں مبتلا کردیتا ہے"۔ انکساری رفعت ہے اور تکبر پستی"۔ کم ظرفی چھچھورا پن ہے۔ بزدلی ایک آفت ہے۔ دوراندیشی سرمایہ اور سستی بربادی ہے۔ انسان دوستی برکت ہے۔ معاف کردینا بہترین احسان ہے۔ علم جہل کو مارنے والا ہے۔ وفا اور صداقت ہم زاد ہیں۔ سخاوت مبحت کی شجرکاری ہے۔ دل کا میلا پن سرکشوں کی خصلت ہے۔
ذلت ہم نفسوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے میں ہے۔ استقامت سلامتی کی ضمانت ہے۔ بخل قدر کم کرادیتا ہے۔ قناعت میں عزت ہے۔ نفس اپنے سوار کو منہ کے بل گرادیتا ہے۔ جاہل کبھی برائی سے باز نہیں رہتا۔ سب سے بہترین گفتگو سچ بولناہے۔
خندہ پیشانی نیکی کا آغاز ہے۔ جھوٹ سچ کا دشمن، اور باطل حق کی ضد ہے۔ جاہل اپنی خواہشوں کے غلام رہتے ہیں۔ عقل فہم کو دعوت دیتی ہے۔
معاف کردینا اچھائیوں کا تاج ہے۔ مال و زر اپنے پاس سمیٹ کر رکھنا قطع رحمی کی ابتداء ہے۔ جھوٹ انسان کو عجیب دار بنادیتا ہے۔ فضول خرچی فنا کو دعوت دیتی ہے۔ تکبر جہالت کا پردہ ہے۔ نفاست عین ذہانت ہے۔
نفاق اور کفر ایک ہی بطن سے پیدا ہوئے ہیں۔ دانا امیدیں کم پالتے ہیں۔ ظلم نعمتوں کو غارت کردیتا ہے۔ تحریر ہاتھ کی زبان ہے۔ حق سے تجاوز نعمت کو زائل کردیتا ہے۔ کینہ پرور کبھی راحت نہیں پاتا۔ غلطی پر اصرار سب سے پست سوچ ہے۔
خواہش نفس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ حلم کمینے کے منہ کو بند کردیتا ہے۔ علم کی کوئی انتہا نہیں۔ صبروقناعت سب سے دیرپا لباس ہیں۔ ادب انسان کا مقام کمال ہے۔ اجل امیدوں کی کھیتی کو کاٹ دیتی ہے۔ غفلت دور اندیشی کی ضد ہے۔ احسان کو جتانا احسان کو فاسد کردیتا ہے۔
حسد زندگی کو بے مزہ کردیتا ہے۔ رازوں کا فاش کرنا بدترین خصلت ہے۔ حق پر رہتے ہوئے مغلوب ہونا درحقیقت غالب ہونا ہے۔ جہالت سب سے بڑی بیماری ہے۔ دور اندیشی پشت پناہی کو مضبوط کردیتی ہے۔ مشورہ کرنے والا کامیابی کے کنارے پر پہنچ جاتا ہے۔
زبان ایک درندہ ہے اگر تونے اسے آزاد چھوڑدیا تو زخم ہی لگائے گا۔ دولت جس طرح رخ کرتی ہے اسی طرح پیٹھ بھی پھیر جاتی ہے۔ جبر کو ٹوٹ کر ہی رہنا ہے۔ حکمت کے علاوہ کسی اور چیز کی طلب ہوس ہے۔ جہالت یہ ے کہ آدمی اپنی خواہشِ نفس اور غرور سے دھوکا کھاجائے۔ کمین وہ ہے جو ہر وقت احسان جتاتا رہے۔ سرکشی مسلسل گھاٹا دینے والی عادت ہے۔ شک دل کے نور کو مٹادیتا ہے۔ حلیم وہ ہے جو ہر حال میں اپنے بھائی بندوں کو برداشت کرتا رہے۔ فقیر اپنے وطن میں بھی خوار ہے اور مالدار کا پردیس بھی وطن ہے۔
قناعت لالچ کی ذلت سے بہتر ہے۔ کم گوئی عمل کی زینت اور حلم کا عنوان ہے۔ انسانیت ہر پست کام سے روکتی ہے۔ منافق کی زبان سرور دینے والی ہوتی ہے۔ حسد پست مرتبہ لوگوں کا شیوہ ہے۔ معذرت کی تکرار مزید غلطیوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ سچائی سب سے طاقتور ستون ہے۔ آرزوئیں فریب دیتی ہیں۔ انجام کے بارے میں غوروفکر ہلاکتوں سے نجات دلاتا ہے۔
جہالت زندوں کو مردہ اور بدبختی میں مبتلا کردیتی ہے۔ بھوک سوال کرنے سے بہتر ہے۔ عقل مند اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے۔ غربت اخلاق کو خراب کرنے اور دوستوں کو دور کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ تحمل مزاجی فضیلت ہے۔
توفیق دو نصیبوں میں سے اشرف نصیب ہے۔ لالچ اس کے لئے ذلت و رسوائی ہے جو اسے اپنا لباس بنالے۔ بناوٹی پن کمینوں کے اخلاق میں شامل ہے۔ احسان ایک ذخیرہ ہے اسے اس کے پاس رکھ جو تجھے لٹاسکے۔ ہٹ دھرمی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ انسان پر مال کو ترجیح دینا کمینہ پن ہے۔
غربت میں قرض سرخ موت (بدترین موت) ہے۔ شکم سیری سوچنے سے محروم کردیتی ہے۔ غصہ دلوں کی آگ ہے بشر اس میں خود جلتا رہتا ہے۔ مروت پستی سے اجتناب برتنے کا نام ہے۔ مہمان نوازی آدمیت کا فخر ہے۔ نیکی کبھی فنا نہیں ہوتی۔ جسمانی خواہشوں کے اسیر غلاموں جیسے ہیں۔ حریص کبھی سیر نہیں ہوتا۔ جھوٹ اخلاق کا عیب ہے۔ دوراندیشی تجربات کو یاد رکھنے کا نام ہے۔
ذخیرہ اندوزی فاجروں کی فطرت ہے۔ کریم وہ ہے جو احسان کےساتھ ابتداء کرے۔ حاسد ہمیشہ بیمار ہی رہتاہے۔ تکبر حماقت کا سرچشمہ ہے۔ علم عقل کا عنوان ہے۔ فکر سے عقلیں منور ہوتی ہیں۔ خودپسندی انسان کے نقائص کا اظہار کردیتی ہے۔ فکر ایک شفاف آئینہ ہے۔ ایثار ایک اصلاح کرنے والا عمل ہے۔
یقین ذہین لوگوں کی چادر ہے۔ خواہش نفس ایک پوشیدہ بیماری ہے۔ بے لگام آرزوئیں نادانوں کا سرمایہ ہیں۔ جاہل کبھی بدی سے باز نہیں آتا۔ حق سے زیادہ کی طلب بیماری ہے۔ خوش کلامی سرخرو کرتی ہے۔ کم گوارہ کرلو مگر ذلت گوارہ نہ کرو۔ زبان اپنے صاحب سے بہت سرکشی کرتی ہے۔ راضی رہنا ایسی نعمت ہے جو کوئی نہیں چھین سکتا۔ منافق ہمیشہ وسوسوں کا شکار رہتا ہے۔ دنیا طلبی خسارے کا بازار ہے۔ دنیا روتے ہوئے انسان کا قہقہ ہے۔ سخاوت شریف ترین عادت ہے۔
لالچ بدترین غلامی ہے۔ دولت تو محض وارثوں کے لئے تسلی ہے۔ عقل آفتوں سے بچائو کا حجاب ہے۔ تجربے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ دوستی آبرو کی قربانی میں نہیں اس کی حفاظت میں ہے۔ انصاف معاشرے کی بقا کا باعث ہے۔ فکر راست گوئی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ سچا دوست عیبوں کا حجاب ہوتا ہے۔
آدمی کی قابلیت اس کی زبان کے نیچے پوشیدہ ہے۔ بے لگام خواہشیں فتنوں کی سواری ہیں۔ احسان ذخیرہ ہے اور کریم اس ذخیرہ کی حفاظت کرتاہے۔ جہالت ایک ایسی بلا ہے جو زندوں کو مردہ کردیتی ہے۔
سردار وہ ہے جو لوگوں کے بوجھ اٹھائے اور دلجوئی میں پیش پیش رہے۔ عقل مند اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے۔ علم بہت عمدہ وارث اور کامل نعمت ہے۔
معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے ظلم پر نہیں۔ ادب کے درخت کی جڑ عقل ہے۔ خودشناختی کمال معرفت ہے۔ بداخلاق شخص جلد طیش میں آجاتا ہے۔
دوست سب سے اچھا ذخیرہ ہیں۔ عدل یہ ہے کہ جب ظلم ہو تو انصاف کرو۔ بزرگی یہ ہے کہ قدرت رکھنے پر معاف کردو۔ چار چیزیں انسان کے لئے سخت عیب ہیں، بخل، جھوٹ، حرص اور بدکلامی۔
سوال ذلت کا طوق ہے یہ عزت دار کی عزت اور صاحب حسب و نسب کا حسب نسب برباد کردیتا ہے۔ طالب علم ہر وقت نیا سیکھنے کی جستجو کرتا رہتا ہے۔ سب سے بڑی ثروت عقل و دانش ہے۔ دوستوں کو کھودینا غریب الوطنی ہے۔