Sazish, Ilzamat, Khatrat Aur Zaroorat
سازش، الزامات، خطرات اور ضرورت
آگے بڑھنے سے قبل بعض باتوں کی تکرار پر پیشگی معذرت قبول کیجئے۔ تکرار اس لئے ہوجاتی ہے کہ صورتحال انہی باتوں کے گرد گھوم رہی ہے۔
فی الوقت سیاست کے میدان سے یہی خام مال دستیاب ہے۔ عمران خان امریکی سازش سے حکومت گرانے کے الزام کا بیانیہ لے کر میدان میں اترے تھے۔ پھر کہا میں اللہ سے دعا کرتا تھا یہ میرے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں میری دعا قبول ہوئی اب دیکھیں میں ان کے ساتھ کیا کرتا ہوں۔
چند دنوں بعد کہا مجھے جولائی 2021ء میں معلوم تھا اپوزیشن حکومت گرانا چاہتی ہے۔ کچھ دن قبل کہا میں نے اپنے وزیر خزانہ شوکت ترین کو ان لوگوں کے پاس جو سازش کو ناکام بناسکتے تھے، بھجوایا اور کہلوایا کہ اگر انہوں نے سازش کو ناکام نہ بنایا تو ملک کی معیشت برباد ہوجائے گی۔ ہم نے جو کام کئے ہیں وہ خاک میں مل جائیں گے۔
اس مرحلہ میں انہوں نے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اسی دوران آئی ایس پی آر نے آصف علی زردار اور مریم نواز کے بعض بیانات پر ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔
اب عمران خان کہہ رہے ہیں میرے قتل کی سازش تیار ہوئی ہے میں کرداروں سے واقف ہوں اس لئے ایک ویڈیو بیان ریکارڈ کروادیا ہے سارے نام اس میں بتادیئے ہیں۔
اتوار کو فیصل آباد میں کہا ایک زہر ہے جو اگر کھانے میں ملادیا جائے تو اس سے ہارٹ اٹیک ہوجاتا ہے۔ ان کے حامی ان کی ہر بات اور الزام پر ایمان لارہے ہیں۔
عمران خان کے الزاماتی بیانیہ نے ملک میں کس قسم کی صورتحال پیدا کردی ہے اس کا ہر کس و ناکس کو اندازہ ہے۔ (ن) لیگ کو گالم گلوچ کی سیاست کا بانی قرار دیتی تحریک انصاف نے عملی طور پر ثابت کردیا کہ اس معاملے میں (ن) لیگ ستر ہزار کلومیٹر پیچھے ہے انصافیوں سے۔ یقین نہ ہو تو فیصل آباد جلسہ میں شریک کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں موجود پلے کارڈز کی عبارتیں پڑھ لیجئے (صحافتی مجبوریاں مانع نہ ہوں تو سوشل میڈیا سے چند دانے تبرکاً پیش کیئے جاسکتے تھے)۔
دعویٰ یہ ہے کہ اس وقت ملک کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا طبقہ ان کا (عمران خان) کا حامی ہے۔ اس پڑھے لکھے طبقے کے منہ سے جھڑتے پھولوں کی مہک سے پورا ملک معطر ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اطلاعاتی دنیا اور سوشل میڈیا پر جو لوگ ان کے حامی ہیں وہ سچے اور مرد میدان ہیں ان پر تنقید کرنے والے ہر ایسی گالی کے حق دار ہیں جو اُس بازار کی کسبیاں بھی ایک دوسرے کو دینے سے شرماتی ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے اس طرزعمل، انداز تکلم اور دوسرے معاملات پر لمحہ بھر کے لئے حیرانی نہیں ہوتی۔
جولائی 1977ء کے بعد سے ایک منظم منصوبے کے تحت سیاسی عمل، جمہوریت اور سیاستدانوں کو ہر دستیاب گالی دلوائی گئی اور الزام لگوایا گیا۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے، سیاسی عمل، جمہوریت اور سیاستدان تینوں میں خامیاں ہوسکتی ہیں۔ یہ انسانوں کا معاشرہ ہے، انسانوں کے وضع کردہ نظاموں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ حرف آخر نہیں ہوتے۔
اسی طرح سیاستدان بھی آسمانی اوتار نہیں ہوتے کہ آنکھیں بند کرکے ان پر ایمان لے آیا جائے۔ نظام کی خرابیوں کو عصری شعور کے ساتھ بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ایک سیاستدان کا متبادل دوسرا سیاستدان ہوتا ہے۔ ایک سیاسی جماعت اگر اپنے انتخابی پروگرام پر عمل نہیں کرسکتی تو رائے دہندگان کو حق ہوتا ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں دوسری جماعت کو آزمائیں۔
یہی زندہ سیاسی عمل کی نشانی ہے۔ ہمارے یہاں اس کے برعکس ہوا۔ جولائی 1977ء سے اب تک سیاسی عمل، جمہوریت اور سیاستدانوں کی خرابیاں بیان کرنے کے پروپیگنڈے پر اربوں روپے خرچ کئے گئے۔
جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء ہو، جنرل پرویز مشرف کی جرنیلی جمہوریت یا درمیان کی نگرانی حکومتیں، ہر قدم پر یہ ثابت کیا گیا کہ جس حکومت کو "رخصت کیا گیا" وہ چور، غیر ذمہ دار اور غیرمحب وطن بھی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پھر اسی "رخصت کردہ" حکومت کے کچھ "نابغوں " کو گود بھی لے لیا گیا۔ یہ سب کس نے کیا کیوں کیا مقصد کیا تھا، تین حصوں پر مشتمل اس ایک سوال کا سادہ سا جواب ہے۔
وہ یہ کہ آپ وزیرستان سے قومی اسمبلی کے رکن علی وزیر کے خلاف کراچی میں درج کروائے گئے ایک مقدمہ کی ایف آئی آر پڑھ لیجئے۔ پھر چند دن قبل سیالکوٹ میں عثمان ڈار کے دفتر کے باہر جمع ہجوم کی نعرہ بازی والی ویڈیو سن لیجئے۔ علی وزیر کی ایک مقدمہ میں ضمانت ہوتی ہے دوسرے میں گرفتاری ڈال دی جاتی ہے مگر 10اپریل کی شام کے اسلام آباد سے 15مئی کے فیصل آباد تک کی گئی تقاریر لگائے گئے نعروں اور اچھالے گئے الزامات پر سانپ سونگھ گیا ہے۔
کیا یہ ڈومیسائل کا فرق ہے؟ یہ سادہ سوال نہیں ہے۔ تخلیق جب خالق کے گریبان سے کھیلتی ہے تو دھجیاں اڑاتی ہے۔ وہ اڑرہی ہیں۔ تخلیق جانے اور خالق۔ دونوں ہمارا مسئلہ نہیں۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ جو نعرے سیالکوٹ میں لگے چند منٹ نہیں پورا دن وہ اگر کسی دوسرے صوبے کے کسی شہر میں کسی اور نے لگائے ہوتے تو کیا اسی طرح درگزر کا مظاہرہ کیا جاتا؟
معاف کیجئے گا یہ فقط اس تحریر نویس کا سوال نہیں بلکہ ہر دوسرا آدمی یہی سوال دریافت کرتا دیکھائی دیتا ہے۔
گزشتہ ایک سوا ایک ماہ سے ملک کی جو عمومی فضا دیکھنے میں آرہی ہے اس پر سادہ الفاظ میں یہی کہا جاسکتاہے کہ جس طرح ماضی کے تجربات گلے پڑے تھے یہ تجربہ صرف گلے ہی نہیں پڑا بلکہ جان کو بھی آگیا ہے۔ بھگتنے والوں کو بھگتنا ہوگا۔
کالم کے اس دوسرے حصے میں یہ عرض کرنا ہے کہ گو حالات خراب ہیں سیاسی اور معاشی دونوں طرح لیکن مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے گا یا بقول شیخ رشید سری لنکا بن سکتا ہے۔
لال حویلی والے شیخ رشید کی زندگی ہی اس طرح کی بے سروپا باتوں سے عبارت ہے۔ پاکستان کے ڈیفالٹ کرجانے اور سری لنکا والے حالات پیدا ہونے کا مطلب انڈس ویلی کی غیرفطری تقسیم ہوگا۔
سیاسیات، تاریخ اور صحافت کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر میری رائے یہی ہے کہ انڈس ویلی کی "غیرفطری تقسیم" فقط انڈس ویلی کی تقسیم نہیں ہوگی اس سے پورا خطہ متاثر ہوگا۔ متاثرین میں ایران، چین، بھارت اور افغانستان بھی شامل ہوں گے۔ آسان الفاظ میں یہ کہ اگر انڈس ویلی غیرفطری طور پر تقسیم ہوئی تو پورے خطے میں دو طرح کی عسکریت کو ہوا ملے گی قومیتی شناخت پر ریاستی وجود کا حصول اور مذہبی عسکریت پسندی۔
اب انڈس ویلی (موجودہ پاکستان) کے جغرافیہ کو سامنے رکھ کر نگاہ دوڑایئے، قومی شناخت کی بنیاد پر ریاستی وجود کے حصول سے کون کون سا پڑوسی متاثر ہوگا اور مذہبی عسکریت پسندی کی لہر ابھرنے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ دو اہم خطرے یا باتیں اگر مجھ سے عام طالب علم کو سمجھ میں آسکتی ہیں تو خطے کے وہ ادارے جن پر ان کے ممالک سالانہ کھربوں روپے خرچ کرتے ہیں ان کے ذم داروں کو کیسے سمجھ میں نہیں آتی ہوں گی۔
ثانیاً یہ 22کروڑ لوگوں کی فیڈریشن ہے۔ قومیتی شناخت کے پانچ معتبر حوالے اپنی تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی حیثیت سے موجود ہیں ان کے بیچوں بیچ مذہبی یا یوں کہہ لیجئے عقیدوں کی بنیاد پر پیدا ہوئی شدت پسندی ہر دو طرح سے موجود ہے ایسے میں تقسیم اگر بے لگام ہوئی تو نتیجہ کیا نکلے گا۔ یہی کہ
پاکستان کے ڈیفالٹ کرجانے اور جغرافیائی توڑپھوڑ کا خمیازہ خطے کو بھیانک انداز میں بھگتنا ہوگا۔
گزشتہ شب ایک عزیز ملاقاتی کے تیکھے سوالات کے جواب میں بھی یہی عرض کیا تھا "تجربات اور تندمزاجی کے ساتھ ساتھ ہم درست اور باقی غلط ہیں کی سوچ نے جہاں لاکھڑا کیا ہے یہ قابل فخر مقام نہیں"۔ ہمارے ممدوح ذوالفقار علی بھٹو تاریخ اور عالمی سیاست کے طالب علم ہی نہیں بلکہ معروف دانشور بھی تھے مگر بدقسمتی سے لگتا ایسے ہے کہ "انہوں نے مسلم تاریخ کے لشکروں کے کردار اور سازشوں کے اوراق پر نگاہ نہیں ڈالی ورنہ وہ یہ تلخ حقیقت جان سکتے تھے کہ کب کب کس لشکر نے کیا کردار ادا کیا"۔
خیر اس جملہ معترضہ سے آگے بڑھتے بلکہ اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ ریاست کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اس کے دوہرے معیار پر اٹھتے سوالات کا جواب نہ ملا تو مسائل پیدا ہوں گے۔ ضروری ہے کہ نہ صرف سوالات کا جواب دیا جائے بلکہ ریاست اور عوام میں موجود بداعتمادی کے خاتمے کے لئے سنجیدہ کوششیں بھی کی جائیں۔