PDM Peoples Party Ki Pitch Par
پی ڈی ایم پیپلزپارٹی کی پچ پر
لیجئے بالآخر پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں حکومت کے خلاف مرحلہ وار تحریک عدم اعتماد لانے پر اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ مبارک و سلامت کے شور میں مجاہدین سول سپر میسی اور "دوسرے" یہ بھول ہی گئے کہ پچھلے برس جب یہی بات پیپلزپارٹی نے کی تھی کہ"استعفے دینے سے بہتر ہوگا کہ مرحلہ وار تحریک عدم اعتماد لائی جائے" تو کھانے کو پڑگئے تھے۔ تب کہا گیا تھا پیپلزپارٹی کی ڈیل ہوگئی ہے۔
زرداری کہتا ہے میرا تو ایک ہی بیٹا ہے۔ پھر یہ ہوا کہ پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل شاہد خاقان عباسی نے اتحاد بنانے والی جماعت اور اے این پی کو شوکاز نوٹس دے دیا۔ پیپلزپارٹی کو اے این پی سمیت پی ڈی ایم سے نکال دیا گیا۔
اب کیا کامریڈ نوازشریف حال مقیم لندن اور قائد انقلاب حضرت مولانا فضل الرحمن سے ادب و احترام کے ساتھ یہ پوچھا نہیں جانا چاہیے کہ حضور، تحریک عدم اعتماد کے لئے کہیں سے "اشارہ" ملا ہے؟ کوئی " آس" دلائی گئی ہے، "نگ" کیسے پورے ہوں گے؟
فقیر راحموں نے بتایا کہ گزشتہ شب مولانا کہہ رہے تھے کہ "حکومت کب جائے گی یہ اللہ ہی جانتا ہے"۔ یہ بھی کہ کروڑوں لوگ آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ضرور دیکھ رہے ہوں گے لیکن کیا کسی بھی مرحلہ پر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے اللہ سئیں کا "پیغام آئے گا؟ " حالات بدل گئے ہیں، کہاں کیسے۔ اگلی بات یہ ہے کہ اس کی کیا گارنٹی ہے کہ پی ڈی ایم اپنے فیصلے پر عمل کرے گا۔
سوال اور بھی ہیں مگر رہنے دیجئے، ایک بنیادی سوال پر بہرطور بات ہونی چاہیے وہ یہ کہ بے اعتمادی کا شکار اپوزیشن کوئی کارنامہ سرانجام دے سکتی ہے؟ "بے اعتمادی"۔ مطلب پی ڈی ایم والے سال بھر سے پیپلزپارٹی کو حکومت کا سہولت کار، اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل شدہ کہتے رہے۔ جواباً پیپلزپارٹی والوں نے بھی غزلیں گائیں۔ اب ان الزامات اور غزلوں کا کیا ہوگا؟
نوازشریف کی صاحبزادی سے صحافی نے چند دن قبل دریافت کیا، آپ نے کچھ عرصہ قبل بلاول بھٹو کے بارے میں ایک ٹیوٹ کیا تھا اب بھی اس پر قائم ہیں؟ اس کا جو جواب انہوں نے دیا وہ ٹیوٹ سے زیادہ شاندار تھا۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس اتحاد کی جماعتوں یا یوں کہہ لیجئے، اپوزیشن جماعتوں میں باہمی اعتماد کا فقدان ہو حالت یہ ہو کہ دیوانگانِ سول سپر میسی اب بھی خاک اڑاتے ہوئے کہتے ہوں کہ محترمہ بینظیر بھٹو کا قاتل آصف علی زرداری ہے اس اتحاد میں مشترکات پر سنجیدگی کیسے آئے گی؟
اپوزیشن والے لوگوں کی زبانیں کیسے بند کرائیں گے۔ لوگوں کو چھوڑیں خود اپنے اپنے حامیوں کو کیسے چُپ کرائیں گے؟ بداعتمادی کی فضا میں اور بالخصوص اس "دُہائی" کے ہوتے ہوئے کہ اسٹیبلشمنٹ جانبدار ہے۔ اپوزیشن کیسے کامیاب ہوگی؟ بجا کہ یہاں اب یہ پوچھنا فضول ہے کہ وہ جو جرنیلوں اور ان کے نمائندوں کی لندن میں پراسرار ملاقاتوں کے قصے فروخت کر کے انقلاب کی مارکیٹنگ کی جارہی تھی اس کا کیا ہوا؟
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ (ن) لیگ کا دعویٰ ہے کہ حکومت کے 20ارکان قومی اسمبلی ہمارے رابطے میں ہیں، 14 ارکان قومی اسمبلی سے رابطوں کا دعویٰ پیپلزپارٹی کا ہے۔ ادھر حکومت کہہ رہی ہے کہ اپوزیشن کے 25ارکان قومی اسمبلی اور 9سینیٹر ہم سے رابطے میں ہیں۔ یقیناً ان دعوئوں کی اصلیت مرحلہ وار عدم اعتماد کے دوران ہی کھلے گی۔ چلئے آگے بڑھتے ہیں۔ یہ کہنا کہ حکومت کی صفوں میں کوئی پریشانی نہیں، درست دعویٰ ہرگز نہیں ہے۔ فواد چودھری اور شیخ رشید کی بڑھکیں "بلاوجہ" نہیں۔ صورتحال کا انہیں بھی احساس ہے۔
پپلزپارٹی کے لانگ مارچ کے جواب میں 26فروری کو سندھ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا انتظام کرنے والے بھی جانتے ہیں کہ اس کے لئے فیصلہ کرنے والے اجلاس میں کہا گیا تھا کہ "تاریخوں کا چنائو کرتے وقت احتیاط کی جائے مطلب ایسا نہ ہو کہ دونوں طرف کے کارکنان کسی مقام پر آمنے سامنے آجائیں اور تصادم کا خطرہ پیدا ہو"۔ کیا یہ سچ نہیں کہ علی زیدی، اسد عمر، مراد سعید اور خود مخدوم شاہ محمود قریشی اس موقع پر کہہ رہے تھے ہمارے کارکنوں کے سیلاب کے سامنے پیپلزپارٹی دور دور تک دیکھائی بھی نہیں دے گی۔
ایک وزیر نے تو یہ بھی فرمایا کہ تصادم ہوتا ہے تو ہو سندھ سے پیپلزپارٹی کا قبضہ چھڑانے کے لئے کسی حد تک بھی جائیں گے۔ کیا اپوزیشن جماعتوں نے اس پر غور کرلیا ہے کہ اگر حکمران اتحاد عوامی سطح پر تصادم پر اتر آیا تو پھر کیا ہوگا؟ ہماری رائے میں سوچا جانا چاہیے کیونکہ یہ ایسا معاملہ نہیں کہ یہ کہہ کر مطمئن ہولیا جائے کہ "کچھ نہیں ہوگا یا یہ کہ جو ہوگا دیکھ لیں گے"۔
حکومت کے خلاف پارلیمانی اور عوامی سطح پر جدوجہد اپوزیشن جماعتوں کا جمہوری آئینی حق ہے۔ اس حق کے استعمال سے قبل حزب اختلاف کی جماعتوں میں کارکنوں اور ہمدردوں کی سطح پر ایک دوسرے کے لیڈروں کیلئے پائی جانے والی بداعتمادی سے نجات حاصل کرنا ہوگی اس کے ساتھ ہی ان مجاہدین (یوٹیوبرز) کو بھی سمجھانا ہوگا کہ "راگ ملہاری" گاتے رہنے کی بجائے سنجیدگی اختیار کیجئے"
حکومت کب جائے گی یہ تو اللہ تعالیٰ کو "معلوم"۔ والی بات ایک لحاظ سے درست بھی ہو تو پھر بھی یہ بتایا جانا چاہیے کہ اگر اپوزیشن کی تحریک کامیاب ہوتی ہے تو متبادل بیانیہ اور اصلاح احوال کا ایجنڈا کیا ہوگا؟ اس سارے معاملے میں چودھری پرویزالٰہی کا یہ بیان خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ "سیاسی منظرنامہ واضح ہوگا تو ہمارا لائحہ عمل بھی آجائے گا"۔ کہنے کو تو انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ "اپوزیشن جمہوریت کے فروغ اور غریبوں کی بھلائی کے لئے بھی کام کرے" مگر اصل بات وہی پہلی ہے۔
یہ پہلی بات فیصلہ کن ہوسکتی ہے جیسے ہی شہباز شریف اور پرویزالٰہی و چودھری شجاعت کی ملاقات ہوئی، یہ ملاقات اگلے ایک دو دن میں متوقع ہے۔ خیر اپوزیشن اور حکومت کے مستقبل پر باتیں ہوتی رہیں گی۔
اب ذرا وزیر خزانہ کے تازہ ارشادات پر بات کرلیتے ہیں۔ حضور فرماتے ہیں کہ، دیوالیہ ہونے پر سعودی عرب 72گھنٹوں میں اپنا قرض واپس لے سکے گا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ سعودی قرض کے حوالے سے معاہدہ پر ان سطور میں عرض کیا تھا کہ معاہدے میں لکھا گیا ہے کہ "دیوالیہ ہونے کی صورت میں پاکستان سعودی عرب کا قرضہ 72گھنٹوں میں واپس کرنے کا پابند ہوگا"۔
حکومت پہلے معاہدے کی کسی ایسی شق کی تردید کرتی رہی ہے اب وزیر خزانہ نے اعتراف کرلیا ہے کہ یہ شق معاہدہ میں شامل ہے۔ اب کیا یہ پوچھا نہیں جانا چاہیے کہ اس شق کی کوئی خاص وجہ؟ کیونکہ یہ حکومت کے ان دعوئوں سے یکسر مختلف ہے کہ ڈیفالف کا کوئی خطرہ نہیں۔ باردیگر عرض ہے صورتحال ویسی نہیں ہے جیسی بیان کی جارہی ہے۔
وزیراعظم کے حالیہ دورہ چین کی جن کامیابیوں کے دعوے سناکر قوم کو بہلایا گیا وہ دعوے صریحاً لفاظی تھی بس۔ چینی سرمایہ کاروں کو مطمئن نہیں کیا جاسکا۔ ان کے سوالات کا کسی کے پاس جواب نہیں تھا۔ ابھی تو داسو ڈیم والے المیہ پر چینی موقف تسلیم کئے جانے کے باوجود دونوں کام نہیں ہوئے۔
اولاً دہشت گردوں کے اس گروپ کے خلاف کارروائی جس نے واردات کی ذمہ داری تسلیم کی تھی، ثانیاً چینی انجینئروں اور کارکنوں کے لئے طلب کیا گیا معاوضہ۔ بہر طور یہ حساس معاملات ہیں عوام کو لالی پاپ سے بہلانے کی بجائے حقائق سامنے رکھنا ہوں گے کیونکہ اسٹیٹ بینک خودمختاری والے بل کے حوالے سے بھی حکومت کا موقف نادرست ثابت ہوا ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ کا کہنا ہے کہ 23مارچ کے مہنگائی لانگ مارچ کا فیصلہ حتمی ہے اس میں ردوبدل کا کوئی امکان نہیں۔