Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Haider Javed Syed/
  4. Parvez Elahi Aur Saain Buzdar

Parvez Elahi Aur Saain Buzdar

پرویزالہٰی اور سائیں بزدار

حمزہ شہباز نے وزیراعلیٰ کے طور پر حلف لیا تو ہمارے چودھری پرویزالٰہی کو یاد آیا کہ جس ٹوٹے ہوئے بازو کا علاج انہوں نے پنجاب اسمبلی کی ڈسپنسری میں "پایوڈین" سے کرانے کی نئی سائنسی و طبی تحقیق سے دھوم مچوائی تھی وہ اصل میں حمزہ شہباز کے کہنے پر ان کے سر میں مارے گئے لوہے کے راڈ کی ضرب تھی۔ یعنی راڈ جب سر میں مارا جارہا تھا انہوں نے بازو کو ڈھال بنایا اور "ہڈی ٹوٹ" گئی۔

یہ ہڈی توڑنے اور جوڑنے کا قصہ انہوں نے 16اپریل کو سنایااور "دعویٰ " کیا تھا اس وقت ان کا کہنا تھا "رانا مشہود وغیرہ نے مجھ پر لابی میں اس وقت حملہ کیا جب میں اکیلا تھا۔ ان کے تشدد سے میرا بازو ٹوٹا میں بیہوش ہوکر گرگیا اس وقت رانا مشہود میرے سینے پر اچھل کود کررہا تھا"۔ اب چودھری صاحب نے بتایاہے کہ حمزہ شہباز کے کہنے پر ظالموں نے میرے سر پر لوہے کا راڈ مارا جس سے میں بیہوش ہوگیا اور "وہ" مجھے پنجاب اسمبلی کے باہر پھینک گئے۔

فقیر ر احموں کا مشورہ تو یہ ہے کہ چودھری صاحب کسی تاخیر کے بغیر سر اور بازو دونوں کسی اچھے ڈاکٹروں کو دکھالیں ساتھ ہی اگر وقت ملے تو ڈاکٹر ترین کو بھی چیک کرالیں اس عمرمیں سر پر لوہے کا راڈ لگنے سے دماغ کی چولیں ہل جاتی ہیں۔ چودھری پرویزالٰہی کے دو بیان (ایک سابقہ اور ایک حالیہ) اور متضاد دعوے پڑھ کر ہمیں سکھ والا لطیفہ یاد آرہا تھا جس سے کوئی پڑوسی چارپائی لینے گیا تھا۔

لطیفہ تو یہاں لکھ نہیں سکتے البتہ چودھری ہوراں نوں مشورہ یہ ہے کہ اللہ آلیو پہلے الزام تو سدھا کرلئو، پھر الزام بھی لگالیں گے۔ ویسے اس سارے بکھیڑے نے نصف صدی سے بنی اس بات کا بھرم بیچ اسمبلی چوک (چیئرنگ کراس) کے توڑ پھوڑدیا ہے کہ گجراتی چودھری بڑے وضع دار، اصول پسند اور حوصلے والے لوگ ہیں۔ اچھے بھلے سپیکر تھے (اب بھی ہیں) سابق متحدہ اپوزیشن نے انہیں متفقہ طور پر پنجاب کی وزارت اعلیٰ پلیٹ میں رکھ کر پیش کی۔

مبارک سلامت ہوئی منہ میٹھا بھی، پھر پتہ نہیں کیا ہوا چودھری اپنے صاحبزادے مونس الٰہی کے ساتھ بنی گالہ پہنچے۔ حکمران اتحاد کی طرف سے وزارت اعلیٰ کے امیدوار بن گئے اس کے بعد وہی ہوا جو لدھیانہ میں ہوتا تھا۔ کیا ہوا؟ یہ آپ سب جانتے ہیں فی الوقت تو یہ ہے کہ قصہ بازو ٹوٹنے سے سر پر راڈ مارے جانے سے ہوتا ہوا پنجاب اسمبلی کے باہر پھینک کر چلے جانے تک آپہنچا ہے۔

امید ہے کہ چند دن بعد چودھری صاحب کو اس "واردات" کے کچھ مزید مصائب بھی یاد آئیں گے اور وہ عوام کی توجہ اور ہمدردی حاصل کرنے کے لئے ضرور سنائیں گے۔ ادھر حمزہ شہباز شریف نے بالآخر شیروانی زیب تن کرکے ہفتہ کی صبح گورنر ہاؤس کے لان میں سجائی گئی تقریب میں وزیراعلیٰ کے طور پر حلف اٹھالیا۔

اس تقریب سے قبل گورنر پنجاب نے آئی جی اور چیف سیکرٹری کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ کچھ نامعلوم افراد گورنر ہاؤس کے دربار حال میں کسی صوبہ پنجاب کے حمزہ شہباز نامی لڑکے کو وزارت اعلیٰ کا حلف دلوانا چاہتے ہیں میرے انکار پر انہوں نے چند غنڈوں کی مدد سے گورنرہاؤس کے لان پر قبضہ کرلیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس قبضے میں گورنر ہاؤس کے عملے کے کچھ لوگ بھی ملوث ہیں آپ دونوں فوری طور پر یہ قبضہ ختم کرائیں ورنہ وڈے خون خرابے کا خطرہ ہے۔

افسوس کہ آئی جی اور چیف سیکرٹری نے پنجاب کے آئینی سربراہ کے اس خط سے صرفِ حظ اٹھایا وڈے فساد (جوکہ وزارت اعلیٰ کے حلف کے سوا کچھ نہیں تھا) کو ٹالنے کے لئے بندوبست نہیں کیا۔ گزشتہ روز گورنر نے پھرتی دکھاتے ہوئے ہمارے ممدوح سردار عثمان علی خان بزدار کے استعفیٰ کی منظوری کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے انہیں کابینہ سمیت بحال کردیا۔ عثمان بزدار نے گورنر ہاؤس میں اپنی کابینہ کا اجلاس منعقد کیا پھر پنجاب اسمبلی چل دیئے۔

وہ اسمبلی کے اندر گئے مگر راوی کہتا ہے کہ انہیں وزیراعلیٰ کے چیمبر میں رونق افروز ہونے سے منع کردیا گیا انہوں نے سپیکر کے چیمبر میں ڈیرہ سجایا۔ کچھ افسروں کو طلب کیا مگر گرتی دیوار کے سائے میں کون بیٹھتا ہے کوئی بھی نہیں۔ بزدار سائیں اور پرویزالٰہی نے کچھ دیر غم غلط کئے حال دل کیا سنایا۔ پھر جب سردار عثمان علی بزدار اسمبلی ہال سے باہر تشریف لائے تو صرف ان کی گاڑی کھڑی تھی، پروٹوکول گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب تھا۔

چند شریر اخبار نویسوں نے بھولے بھالے یتیم بال عثمان بزدار سے پوچھا آپ کا پروٹوکول کہا گیا؟ معصومیت سے بولے وہ میں نے خود واپس بھجوادیا ہے۔ سوال ہوا کہاں گورنر ہاؤس؟ اس پر سردار نے دکھی چہرے کے ساتھ سوال کرنے والے صحافیوں کی طرف دیکھا پتہ نہیں مجھے ایسا کیوں لگا کہ ان کی آنکھیں کہہ رہی تھیں، "پردیسیوں، یتیموں اور فقیروں سے مذاق نہیں کرتے"۔

فقیر راحموں کے ایک مرید کا دعویٰ ہے کہ عثمان بزدار اسمبلی ہال سے سیدھے گورنر ہاؤس کی طرف گئے اور مین گیٹ سے قبل سڑک پر درختوں کے سائے میں گاڑی رکواکر انہوں نے حسرت بھری نگاہوں سے گورنر ہاؤس کے گیٹ کی طرف دیکھا جہاں میلہ لگا ہوا تھا۔ پھر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے جھولی پھیلاکر کچھ کہا۔ ہم نے فقیر راحموں کے مرید سے پوچھا، بزدار نے جھولی پھیلاکر کیا کہا؟

وہ بولے شاہ جی، عثمان بزدار نے گڈی کے شیشے بند کئے ہوئے تھے میں آواز تو نہیں سن سکا البتہ اندازہ ہے کہ وہ کہہ رہے تھے "یار میں تہاڈے نال اتنی بھیڑی تاں نہ کیتی ہائی جیویں تساں میڈے نال کیتی اے، چنگا ہن میں تونسے ول ویساں "۔ ایک بات ہے وہ یہ کہ ہمارے تونسوی بھرا عثمان بزدار کو لطیفہ ہی بنادیا گورنر عمر سرفراز چیمہ نے۔

چنگا بھلا شریف آدمی نگران وزیراعلیٰ لگا ہوا تھا، نئے وزیراعلیٰ کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوتا اور حلف برداری کے بعد گھر اور دفتر کی چابیاں بمعہ پروٹوکول حمزہ شہباز کے سپرد کرکے گھر چلا جاتا۔ اس میں کسی کا نفع نقصان کیا تھا؟ مگر یار لوگوں نے اپنے چسکوں کے لئے تونسہ کے سیدھے سادھے مشوم شخص کا لاہور کی سڑکوں پر تماشا بنوادیا۔ یہ اچھا نہیں کیا لاہور والوں نے۔

خیر کوئی بات نہیں بزدار اب بارتھی واپس جائے گا اور اگلے الیکشن کی تیاریاں کرے گا اگر دو، تین معاملات آڑے نہ آئے ان میں سے اہم معاملہ بلکہ مسئلہ ایک فائل کا ہے جو دو دن قبل پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے چیمبر سے "اڑاکر" کچھ ویریوں نے جاتی امرا پہنچائی ہے۔ عقل مندی یہ کی کہ اس کی دو تین کاپیاں کروالی ہیں۔ فائل میں ظاہر ہے کہ وزیراعلیٰ کے اسمبلی چیمبر میں ہوئے اخراجات کا حساب کتاب تو نہیں لکھا ہوگا۔

راوی کا دعویٰ ہے کہ اس فائل سے یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ سابق خاتون اول کی سہیلی محترمہ فرح شہزادی (فرح گوگی) کا کتنا اثرورسوخ اور اختیارات تھے؟ کچھ کاغذات ایسے بھی ہیں جو براہ راست ہمارے مشوم سے بزدار کے گلے کا پھندہ بن سکتے ہیں۔ اللہ کرے یہ بات مشوم اور بھولے بھالے بزدار کے کسی دشمن نے اڑائی ہو سچ ہوئی تو پھر "بزدار تو گیورے" والا معاملہ ہی ہے۔

فقیر راحموں کے ایک مرید خاص کا دعویٰ ہے کہ عثمان بزدار اپنے بھائیوں، برادر نسبتی اور چند "ندیمان خاص" کے کرتوتوں کے قصے سامنے آنے پر اتنے پریشان نہیں ہوئے جتنا وہ اس فائل کے گم ہوجانے پر پریشان ہیں۔ کیا بزدار سائیں اتنے ہی سادہ ہیں کہ انہوں نے خود اپنے خلاف فائل بناکر اپنے اسمبلی والے چیمبر میں رکھی ہوئی تھی؟

اس سوال کے جواب میں بتایا جارہاہے کہ یہ فائل انہیں وزارت اعلیٰ کا رولہ گولہ شروع ہونے کے بعد ان کے ایک ہمدرد افسر نے یہ کہہ کر انہیں فراہم کی تھی کہ سائیں ان معاملات کا بھی کوئی حل تلاش کرلیجئے۔ چلیں اب جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ گاجریں جس نے کھائیں ڈاکٹر کے پاس وہی جائے گا۔

ابھی تو صورت یہ ہے کہ حمزہ شہباز پنجاب کے 21ویں وزیراعلیٰ بن گئے ان کے وزیراعلیٰ بننے اور سائیں بزدار کی مکمل رخصتی کے احکامات (نوٹیفکیشن) جاری کردیئے گئے ہیں۔ مگر پنجاب میں آئینی اور سیاسی تنازعہ بہرطور موجود ہے۔ کچھ معاملات عدالتوں میں بھی ہیں د یکھتے ہیں کہ ان میں سے کیا نکلتا ہے۔

Check Also

Ulama Kya Kar Rahe Hain

By Naveed Khalid Tarar