Namoone Ke Chand Bayanaat
نمونے کے چند "بیانات"
ہوا بازی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان ٹیکسلا کے قریب جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر تابڑتوڑ حملوں کے دوران جذبات پر قابو نہ رکھ سکے، کہنے لگے خودکشی حرام ہے ورنہ میرا جی چاہتا ہے کہ "جہاں یہ بے دین اور ملک دشمن لوگ بیٹھے ہوں میں ان پر خودکش حملہ کردوں "۔
خان صاحب ماضی میں ان بے دین اور ملک دشمنوں کے تابعدار ساتھی بھی رہے ہیں اور وفاقی وزیر شزیر بھی۔ سیاسی زندگی کی سب بڑی شہرت انہوں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں پی آئی اے کے پائلٹوں کی جعلی ڈگریوں اور ہوا بازی کے لائسنس کے حوالے سے بیان دے کر حاصل کی تھی جس سے ہوا بازی کا قومی ادارہ(پی آئی اے) اب تک نہیں سنبھل پایا۔ سنبھل تو خیر خان صاحب بھی نہیں پائے بڑے "مست ملنگ" آدمی ہیں ان کی اپنی ڈگری بھی متنازعہ ہے لیکن خیر ہے یہ کوئی مسئلہ فیثا غورث ہرگز نہیں۔
سیاسی تاریخ کے ایسے بہت سارے کردار ابھی زندہ و تابندہ ہیں جنہوں نے جنرل مشرف کے دور میں رکن اسمبلی کے لئے بی اے کی ڈگری کی شرط کے بعد اپنے اپنے مسلکوں کے مدارس سے درس نظامی و شہادت العالمیہ اور سلطان الفاضل کی اسناد لیں مگر زندگی میں کبھی دینی مدرسہ کا منہ تک نہیں دیکھا تھا۔ غلام سرور خان کو فقیرراحموں نے خودکشی کو شہادت میں بدلنے کا نسخہ بتاتے ہوئے کہا کہ "اگر وہ مطلوبہ جیکٹ پہن کر واہگہ کے اُس پار چلے جائیں تو قومی ہیرو بن سکتے ہیں "۔
اس طنزیہ مشورے کو اٹھارکھئے اصل بات یہ ہے کہ کیا ایک وفاقی وزیر کو یہ بیان زیب دیتا ہے اب اگر اس بیان کو فیٹف کے آئندہ اجلاس میں بطور سند پیش کردیا جائے تو کیا ہوگا؟ اس پر لمبی چوڑی بحث اور سر کھپانے کی ضرورت نہیں جو نتیجہ نکلے گا اس کا اندازہ ابھی سے لگایا جاسکتا ہے۔
غور طلب بیان وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری کا بھی ہے۔ فرماتے ہیں عدم اعتماد والے دن اسلام آباد میں ہماری ریلی اور جلسہ ہوگا اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے لئے ووٹ ڈالنے کے لئے جانے والوں کو اس کے درمیان سے گزر کر جانا ہوگا اور واپسی پر بھی یہیں سے گزریں گے۔ اینکر نے سوال کیا پھر کیا ہوگا؟ بولے "دیکھتے ہیں پھر کیا ہوگا"۔ اس بیان کے مطالب و معانی اور پوشیدہ دھمکی پر غور کیجئے کہ وزیر موصوف کہنا کیا چاہتے ہیں اور کن سے کہہ رہے ہیں۔ سادہ لفظوں میں یہ دھمکی ہے اور خوفناک دھمکی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دھمکی 20سال کے سیاسی سفر میں 4پارٹیاں تبدیل کرنے والے فواد حسین چودھری دے رہے ہیں۔ وزیر اطلاعات کسی بھی حکومت کا "چہرہ" ہوتا ہے۔ چہرہ کیا ترجمان لوگ وزیر اطلاعات کے بیانات سے حکومت کی سوچ فکر اور ارادوں کا اندازہ لگاتے ہیں۔ اب ٹھنڈے دل سے اندازہ لگالیجئے۔ حکومت کیا چاہتی ہے اور کس حد تک جاسکتی ہے۔
سوال یہ نہیں کہ فواد چودھری نے یہ دھمکی بھرا بیان کیوں کیا۔ سوال یہ ہے کہ تام جھام ہاتھوں سے جاتا دیکھ کر اتنی بوکھلاہٹ کیوں۔ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن کا جمہوری حق ہے اس کا مقابلہ کرنا حکومت کا حق۔ دونوں کو کسی بھی صورت جمہوری ادب و آداب سے کھلواڑ نہیں کرنا چاہیے۔
نمونے کا تیسرا بیان شیخ رشید احمد کا ہے موصوف وزیر داخلہ ہیں خود کو ہمیشہ گیٹ نمبر4 کا ترجمان اور محب بتاتے ہیں۔ اتوار کو ایک تقریب کے بعد اخبار نویسوں کے سوالات کے جواب میں بولے، "بلو رانی (بلاول بھٹو) کو کچھ نہ کہا کریں وہ کپڑے پھاڑ کر تھانہ جاسکتی ہے"۔ یہ پہلا موقع نہیں ذومعنی گفتگو کا یہی شیخ رشید تھے جنہوں نے مسلم لیگ (ن) کے پہلے دور (ویسے یہ اسلامی جمہوریت اتحاد کا دور بھی تھا) میں قومی اسمبلی میں محترمہ بینظیر بھٹو کے بارے میں بازاری الفاظ استعمال کئے تھے۔ تب (ن) لیگ کے صرف ایک رکن خواجہ محمد آصف نے شیخ رشید کے سوقیانہ جملوں سے اتفاق نہیں کیا تھا باقی سارے ڈیسک بجاکر داد دیتے رہے۔ داد دینے والوں میں چھاونی بوائے چودھری نثار علی خان پیش پیش تھے۔
ذومعنی جملوں سے مخالفین کی تحقیروتذلیل کا سامان کرنے والے شیخ رشید سال 1976ء کی ایک شب کے اس حادثے کو بھول گئے جب وہ مسلم لیگ ہائوس ڈیوس روڈ پر ایم ایس ایف کا مرکزی صدر بننے آئے تھے مگر گئے ایک عدد دستبرداری لکھ کر۔ دستبردار کیوں ہوئے یہ ایک الگ کہانی ہے۔ انہیں ایم ایس ایف کا صدر مرحوم چودھری ظہور الہٰی بنوانا چاہتے تھے۔ وہی انہیں لائے تھے لیکن الیکشن والے دن چودھری صاحب کو پتہ چلا کہ ان کا امیدوار رات کی تاریکی میں دستبرداری لکھ کر پتلی گلی معاف کیجئے گا جی ٹی روڈ سے واپس راولپنڈی چلا گیا ہے۔
نمونے کا ایک اور بیان گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے امتیاز صفدر وڑائچ کا ہے۔ موصوف تحریک انصاف سے واپس پیپلزپارٹی میں آئے ہیں۔ تحریک انصاف میں کیوں گئے تھے یہ کوئی راز نہیں یہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جن کا موقف تھاکہ آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی کو تباہ کردیا ہے۔
پنجاب میں اب سیاست صرف تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے ہوسکتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے انہیں رکن اسمبلی اور وفاقی وزیر تک بنایاتھا، تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو تیسری قطار میں بھی جگہ نہ بناسکے۔ گزشتہ روز کہہ رہے تھے تحریک انصاف سیاسی جماعت نہیں ایک ٹولہ ہے۔
جب تحریک انصاف میں گئے تھے تو فرمایا تھا، بھٹو صاحب کے بعد عمران خان نے عوام میں جوش و ولولہ پیدا کیا ہے اسے دیکھ کر مجھے یقین ہے کہ اب اس ملک میں انصاف کا بول بالا ہوگا۔ چند برس بعد پی ٹی آئی کے کنٹینرز سے چھلانگ لگا کر پیپلزپارٹی کے صحن میں کودتے وقت بولے میں اپنے گھر واپس آگیاہوں۔
خیر گھر والے جانیں اور صحن میں کودنے والا۔ یہ پیپلزپارٹی کا اندرونی معاملہ ہے البتہ ایک سوال ہے اگر پیپلزپارٹی ناراض نہ ہو، سوال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں پارٹیاں بدلنے کی غلام مصطفی کھر جیسی شہرت رکھنے والے پرویز خٹک (وفاقی وزیر دفاع) نے چند برس قبل کہا تھا "میں جب بھی کسی گھر پر پیپلزپارٹی کا ترنگا دیکھتا ہوں میراخون کھولنے لگتا ہے کیونکہ یہ ترنگا بدنام عورتوں کے گھر کی نشانی ہے"۔
سنا ہے کہ پیپلزپارٹی اور پرویز خٹک کے درمیان بھی دو بار رابطے ہوئے ہیں۔ یوں کہہ لیجئے کہ پرویز خٹک نے دو بار پیپلز پارٹی سے رابطہ کیا ہے۔ پوچھنا یہ تھا کہ کیا پیپلزپارٹی میں ان کی واپسی (اگر ہوتی ہے) کو بھی صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آیا کی طرح سمجھا جائے گا؟
نمونے کا آخری بیان وزیراعظم کے گرین کارڈ ہولڈر معاون خصوصی شہباز گل کا ہے۔ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑنے والوں کے پوسٹر بناکر ان کے حلقوں میں لگائیں گے پھر عوام ان کے ساتھ جو کریں گے وہ سب جانتے ہیں۔ اس دھمکی کی ضرورت کیوں آن پڑی اس کی وجہ بڑی سادہ ہےوہ یہ کہ اکتوبر دو ہزار گیارہ کے بعد تحریک انصاف کی اٹھان کن کے طفیل ہوئی یہ غار میں محفوظ راز نہیں کہ الہٰ دین کے چراغ والے جن نے ہی اسے افشا کرنا ہے۔ حکومتی ذمہ داران اس طرح کی دھمکیوں بھرے بیان کیوں اور کب دیتے ہیں اس سے ہر کس وناکس آگاہ ہے۔
اب آیئے تھوڑا سا سوشل میڈیا پر لگے رونق میلے سے دلپشوری کرلیجئے۔ تحریک انصاف کے مجاہدین حکمران اتحاد کی بعض جماعتوں کے "واری صدقے" ہو ہو جارہے ہیں۔ بہت معذرت کہ وہ جملے یہاں لکھے نہیں جاسکتے البتہ دو سوال ہیں ایک یہ کہ کیا نیا اتحاد تشکیل دینا ارتداد کے زمرے میں آتا ہے؟ دوسرا یہ کہ جب جہانگیر ترین کے جہاز پر آزاد ارکان کو لاد کر منزل پر پہنچایا جارہا تھا تو یہ انصاف کی فتح تھی۔ جب دوسری جماعتوں سے لوگ پی ٹی آئی میں آتے تھے تو اس وقت مخالف ٹیموں کی وکٹیں گرائی جاتی تھیں۔
اب کسی کا خودکش حملہ کرنے کو کی جی چاہتا ہے کوئی کھلی دھمکی دے رہا ہے، کوئی پوسٹر لگانے کی، آخر یہ سب چل کیا رہا ہے؟ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔